امریکی سی آئی اے کی معاونت کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر نے خیبر ایجنسی کی انتظامیہ کی جانب سے اُنھیں دی گئی عمر قید کی سزا کے خلاف اپیل کے کاغذات اور وکالت نامے پر دستخط کیے۔
اُسامہ بن لادن کی آخری پناہ گاہ تک پہنچنے میں امریکہ کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار ایک پاکستانی ڈاکٹر کے بھائی اور وکلاء نے جمعرات کے روز سینٹرل جیل پشاور میں اُن سے ملاقات کی۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپنے بھائی جمیل آفریدی سے یہ دوسری جب کہ وکلاء سے پہلی ملاقات تھی، جس کا انتظام امن تحریک کے سرکردہ رہنما ادریس کمال نے صوبائی وزارت داخلہ اور قبائلی اُمور سے متعلق سرکاری شعبےکے توسط سے کیا۔
جیل اور دیگر متعلقہ حکام کی موجودگی میں ایک گھنٹہ طویل اس ملاقات میں شکیل آفریدی نے خیبر ایجنسی کی سیاسی انتظامیہ کی جانب سے اُنھیں دی گئی عمر قید کی سزا کے خلاف اپیل کے کاغذات اور وکالت نامے پر دستخط کیے۔
بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ادریس کمال نے کہا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی صحت اطمنیان بخش ہے لیکن جیل میں وہ اپنی سلامتی سے متعلق فکر مند ہے جس کا حکومت کو بھی ادراک ہونا چاہیئے۔
گزشتہ سال ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈو آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بعض امریکی اخبارات کے انکشاف پر شکیل آفریدی کو پاکستانی حکام نے حراست میں لے لیا تھا کہ القاعدہ کے مفرور رہنما کی گھر میں موجودگی کی تصدیق کے لیے شکیل آفریدی نے بچوں کو بیماریوں سے بچاؤ کی دوا دینے کی جعلی مہم چلائی تھی۔
امریکہ نے اس گرفتاری پر احتجاج اور ڈاکٹر آفریدی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا مگر پاکستان کی جانب سے اس موضوع پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
لیکن اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے کہ ڈاکٹر آفریدی کو امریکہ سے رابطوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، اس سال کے اوائل میں متنازع قبائلی قانون ’ایف سی آر‘ کے تحت ڈاکٹر آفریدی پر مقدمہ چلا کر اُسے ریاست مخالف شدت پسند کالعدم تنظیموں کے ساتھ رابطوں کے الزام میں 33 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ ڈاکٹر آفریدی کا تعلق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے ہے۔
امریکہ اس فیصلے پر مسلسل احتجاج اور ڈاکٹر آفریدی کی رہائی کا مسلسل مطالبہ کررہا ہے اور یہ معاملہ سفارتی رابطوں میں تناؤ کی ایک بڑی وجہ بنا ہوا ہے۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپنے بھائی جمیل آفریدی سے یہ دوسری جب کہ وکلاء سے پہلی ملاقات تھی، جس کا انتظام امن تحریک کے سرکردہ رہنما ادریس کمال نے صوبائی وزارت داخلہ اور قبائلی اُمور سے متعلق سرکاری شعبےکے توسط سے کیا۔
جیل اور دیگر متعلقہ حکام کی موجودگی میں ایک گھنٹہ طویل اس ملاقات میں شکیل آفریدی نے خیبر ایجنسی کی سیاسی انتظامیہ کی جانب سے اُنھیں دی گئی عمر قید کی سزا کے خلاف اپیل کے کاغذات اور وکالت نامے پر دستخط کیے۔
بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ادریس کمال نے کہا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی صحت اطمنیان بخش ہے لیکن جیل میں وہ اپنی سلامتی سے متعلق فکر مند ہے جس کا حکومت کو بھی ادراک ہونا چاہیئے۔
گزشتہ سال ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈو آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بعض امریکی اخبارات کے انکشاف پر شکیل آفریدی کو پاکستانی حکام نے حراست میں لے لیا تھا کہ القاعدہ کے مفرور رہنما کی گھر میں موجودگی کی تصدیق کے لیے شکیل آفریدی نے بچوں کو بیماریوں سے بچاؤ کی دوا دینے کی جعلی مہم چلائی تھی۔
امریکہ نے اس گرفتاری پر احتجاج اور ڈاکٹر آفریدی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا مگر پاکستان کی جانب سے اس موضوع پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
لیکن اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے کہ ڈاکٹر آفریدی کو امریکہ سے رابطوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، اس سال کے اوائل میں متنازع قبائلی قانون ’ایف سی آر‘ کے تحت ڈاکٹر آفریدی پر مقدمہ چلا کر اُسے ریاست مخالف شدت پسند کالعدم تنظیموں کے ساتھ رابطوں کے الزام میں 33 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ ڈاکٹر آفریدی کا تعلق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے ہے۔
امریکہ اس فیصلے پر مسلسل احتجاج اور ڈاکٹر آفریدی کی رہائی کا مسلسل مطالبہ کررہا ہے اور یہ معاملہ سفارتی رابطوں میں تناؤ کی ایک بڑی وجہ بنا ہوا ہے۔