پاکستان میں سلامتی کی صورت حال پر کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کا کہنا کہ ہر چند کہ 2017 کے مقابلے میں گزشتہ سال پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود تحریک طالبان پاکستان اور اس سے منسلک شدت پسند گروپ بشمول داعش پاکستان کے لئے بدستور خطرہ ہیں۔
وائس آف امریکہ کے اردو سروس کے پروگرام جہاں رنگ میں قمر عباس جعفری نے اس بارے میں دو ماہرین سٹریٹیجک انیلیسز فورم کے سلمان جاوید اور گلوبل ویلیج پیس کے جواد فلک سے گفتگو کی۔
پاکستان میں داعش کی موجودگی اور حکومت کے ان دعووں کے بارے میں کہ وہاں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے، سلمان جاوید کا کہنا تھا کہ جب یہ بات کی جاتی ہے کہ پاکستان میں داعش کے ’قدموں کے نشانات‘ ہیں یا نہیں تو افواج پاکستان یا حکومت پاکستان کا یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے کہ اس کا وہاں کوئی وجود نہیں ہے۔ کیونکہ داعش کا اپنا کمان اور کنٹرول کا کوئی نظام پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ بلکہ مختلف گروپس جن میں بطور خاص فرقہ وارانہ بنیادوں پر کام کرنے والے گروپ شامل ہیں جیسے کہ لشکر جھنگوی العالمی وغیرہ ہیں۔ وہ اس کا نام استعمال کرتے ہیں۔ اور ان کے رابطے افغانستان میں موجود داعش کے کمان اینڈ کنٹرول کے نظام سے ہیں۔
SEE ALSO: لاپتا پاکستانی لڑکی داعش میں شامل ہوگئیان میں وہ عناصر بھی شامل ہیں جو ٹی ٹی پی یا القاعدہ کے ساتھ شامل تھے اور بعد میں ملک میں فوجی کارروائی کے نتیجے میں یا تو بھاگنے پر مجبور ہو گئے یا چھپ گئے۔ وہ داعش سے اپنا تعلق ظاہر کر کے اور کمان لے کر یہاں پر کارروائیاں کرتے ہیں۔
پاکستان کے پاس کی اس سلسلے میں کیا آپشنز ہیں اس بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سلمان جاوید کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اب فرقہ وارانہ بنیادوں پر نفرتیں پھیلانے والوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔ اور علماء اور مذہبی اسکالرز کو اس میں ملوث کرنا چاہئے۔
داعش کے خطرے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جواد فلک نے کہا کہ پاکستان کے لئے داعش ہمیشہ خطرہ رہے گی۔ اور آسان اہداف پر حملے کرتی رہے گی۔ لیکن عراق اور شام کے اندر جس طرح ان کا ظہور ہوا تھا اور بہت سارے علاقوں پر انہوں نے قبضہ کرلیا تھا، اس حد تک یہ خطرہ پاکستان میں نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت داعش کی زیادہ تر توجہ لیبیا کی طرف ہے کیونکہ وہاں افراتفری اور شورش کی صورت حال ہے اور خانہ جنگی چل رہی ہے۔
داعش کی حقیقت اور اس کے فلسفے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں جواد فلک نے کہا کہ بنیادی طور پر وہ خود کو اسلامی نظریات کا داعی کہتے ہیں۔ القاعدہ کا بھی یہ ہی نعرہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان بھی یہ ہی کہتی ہے کہ ایک حقیقی اسلامی حکومت لانی ہے۔
داعش کا فلسفہ یہ ہے کہ ایک اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے ان کو خواہ کچھ بھی کرنا پڑے۔ جتنا بھی خون خرابہ کرنا پڑے وہ جائز ہے۔ اسی لئے بہت سے اسلامی اسکالرز ان کو خوارج بھی کہتے ہیں جو دوسروں پر تشدد کر کے اور انہیں مرتد قرار دے کر اپنا مقصد حاصل کرنا اور بہ زور طاقت مسلمانوں کو مغلوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان میں داعش کی موجودگی کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے سلمان جاوید کا کہنا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5