پاکستان نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند تنظیم داعش خراسان کے درمیان گٹھ جوڑ ملک کے لیے گہری تشویش کا سبب ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کے دفتر سے پیر کی شب جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ خطے میں ابھرنے والے نئے عناصر سے نمٹنے کے لیے قریبی تعاون اور اعتماد کی ضرورت ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ دوسروں پر انگلی اٹھانا اور الزام تراشی کسی طور بھی سود مند نہیں ہو گی۔
واضح رہے کہ افغانستان میں ’ریزلیوٹ سپورٹ مشن‘ کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے گزشتہ ہفتے امریکہ کی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ پیچیدہ تعلقات سے متعلق ایک مکمل جائزے کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ افغانستان میں موجود شدت پسند تنظیم داعش میں شامل بیشتر جنگجوؤں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے جاری بیان میں امریکہ کی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہونے والی بحث کے بعض نکات پر مایوسی کا اظہار کیا گیا۔
جنرل جان نکولسن نے امریکہ کی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں اب بھی حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی پناہ گاہیں ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق امریکہ کی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے بعض اراکین کی طرف سے افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے کردار کا اعتراف خوش آئند ہے لیکن دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے متعلق الزامات پر پاکستان کو مایوسی ہوئی۔
بیان میں کہا گیا کہ افغان سرحد کے قریب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حالیہ فوجی کارروائیوں میں دہشت گردوں کے خلاف نمایاں کامیابیاں ملیں اور پاک افغان سرحدی علاقے میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق یہ کامیابی تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلاتفریق کارروائیوں کے سبب ملی۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کے سینیئر عہدیدار اور اراکین کانگریس پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جا کر خود صورت حال اور وہاں درپیش چینلجوں کو دیکھ چکے ہیں۔
تجزیہ کار ظفر جسپال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں داعش یقیناً پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور اُن کے بقول دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تینوں ممالک افغانستان، پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون ضروری ہے۔
’’افغانستان میں امن، خطے کی سلامتی اور اس سے زیادہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے تینوں ممالک کے مابین ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔۔۔ (افغانستان اور امریکہ) دونوں کا خیال ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی مدد کر رہا ہے۔۔۔۔ بنیادی طور یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان نے اس بارے میں اپنی مجبوریاں بتائی ہوئی ہیں۔‘‘
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ کہتے ہیں کہ تینوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور اعتماد سازی کی بدولت دہشت گردوں کے خلاف کوششوں کو تقویت ملے گی۔
’’خطے میں امن کے (فروغ) کے لیے ذمہ داری سب کی بنتی ہے، افغانستان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے، پاکستان کی بھی بنتی ہے اور باقی ممالک کی بھی بنتی ہے۔۔۔ جب افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوں تو وہ اس کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتے ہیں۔۔۔ میرے خیال میں اس پر جب تک ہمارا آپس میں اعتماد نہیں ہو گا اور رکاوٹوں کو دور نہیں کیا جائے تو یہ سلسلہ اسی طرح سے چلتا رہے گا۔‘‘
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑے ہونے کا راستہ منتخب کیا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 60 ہزار پاکستانیوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا جب کہ ملک کی معیشت کو لگ بھگ 118 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس کے درمیان ٹیلی فون پر رابطے میں بھی خطے میں امن و استحکام کے مشترکہ مقصد کے حصول کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان مختلف سطحوں پر رابطے جاری رکھنے پر بھی آمادگی کا اظہار کیا گیا تھا۔