پاکستانی حکام نے پشاور سے گرفتار کیے گئے مبینہ طور پر داعش سے منسلک چار شدت پسندوں کو افغان حکام کے حوالے کر دیا ہے۔
حکام نے دعویٰ کیا کہ یہ چاروں افراد افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہونے کے بعد علاج کی غرض سے غیر قانونی طور پر پاکستان داخل ہوئے تھے۔
خفیہ معلومات پر کی گئی کارروائی میں پولیس نے ان افراد کو گرفتار کیا۔
خیبرایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نیاز محمد نے صحافیوں کو بتایا کہ پشاور نے تفتیش کے بعد انھیں پولیٹیکل انتظامیہ کے حوالے کیا تھا اور اب جذبہ خیرسگالی کے طور پر انھیں افغان حکام کے سپرد کر دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے ملکی قوانین کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کریں۔
ان افراد کے نام جاوید خان، نعمت اللہ عرف حامد اللہ، تالیمن اور صفی اللہ بتائے گئے ہیں اور ان کا تعلق افغان صوبے ننگرہار کے علاقے چپری ہار سے ہے۔
پولیٹیکل انتظامیہ کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فورسز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بلا تفریق کارروائیاں کرتے رہیں گے۔
اس سے پہلے بھی ایسی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں کہ افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں زخمی ہونے والے بعض عسکریت پسند خاص طور پر پشاور اور کوئٹہ میں علاج کے لیے آتے رہے ہیں لیکن پاکستانی حکام کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہونے والوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ سرحد کے آر پار غیرقانونی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے افغانستان اپنی جانب سرحد کی موثر نگرانی کے انتظامات کرے۔
حالیہ برسوں میں شدت پسند تنظیم داعش نے افغانستان کے خصوصاً پاکستان سے ملحقہ مشرقی علاقوں میں اپنے قدم جمائے ہیں اور ان کی طرف سے طالبان کے ساتھ جھڑپوں کے علاوہ متعدد ہلاک خیز حملے بھی دیکھنے میں آچکے ہیں۔
دریں اثناء افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ وہاں نامعلوم افراد کی طرف سے ایسے پمفلٹ پھینکے گئے ہیں جن میں اس تنظیم کی طرف سے پاکستانی قبائلی علاقوں میں کارروائیاں شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
حالیہ برسوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں داعش سے وابستگی کے الزام میں درجنوں افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جب کہ حکام یہ بھی بتا چکے ہیں کہ متعدد افراد داعش میں شمولیت کے لیے شام بھی گئے ہیں۔
تاہم پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں داعش کی کوئی منظم موجودگی نہیں ہے اور نہ ہی اسے یہاں قدم جمانے دیے جائیں گے۔