لاہور میں ایک ہفتے قبل دو پاکستانی نوجوانوں کو گولیاں مار کر قتل کرنے کے الزام میں زیر حراست امریکی شہری کا چھ روزہ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر مشتبہ شخص کو جمعرات کے روز سخت حفاظتی انتظامات میں ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پولیس کی درخواست پر مجسٹریٹ نے تفتیش کے لیے اُس کے ریمانڈ میں آٹھ روز کی توسیع کر دی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ زیر حراست امریکی ایک سفارت کار ہے اور پاکستانی پولیس نے اس کی حیثیت جاننے کے باوجود اسے حراست میں رکھا ہوا ہے جو ان بین الاقوامی معاہدوں کی صریحاً خلاف وزری ہے جس پر پاکستان نے بھی دستخط کر رکھے ہیں کیوں کہ سفارتی عملے سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے تحت میزبان ملکوں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر ملکی سفارت کاروں کو نا تو گرفتار کر سکتے ہیں اور نا ہی اُن کے خلاف مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی حکام نے ریمنڈ ڈیوس کی سفارتی حیثیت کے بارے میں کوئی واضح بیان نہیں دیا ہے تاہم وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے ایک روز قبل پارلیمان کے ایوان بالا سینیٹ کے اجلاس سے خطاب میں انکشاف کیا تھا کہ امریکی شہری پاکستان میں ایک سفارتی پاسپورٹ کے ساتھ داخل ہوا تھا۔
لیکن وزیر داخلہ کا یہ بیان مقامی میڈیا کو بظاہر مطمئن نہیں کر سکا ہے کیوں کہ پاکستان میں تعینات کسی بھی ملک کے سفارت کار کا مکمل ریکارڈ وزارت خارجہ کے پاس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں دوران وزارت خارجہ کے ترجان عبدالباسط کو اس وقت ایک مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب صحافیوں نے ان پر ریمنڈ ڈیوس اور اس واقعے سے جڑے دیگر معاملات کے بارے میں سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
تاہم ہر سوال کے جواب میں ترجمان کا ایک ہی جواب تھا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لیے وہ اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ترجمان نے سینیٹ میں رحمن ملک کے بیان پر بھی اظہار خیال کرنے سے گریز کیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ریمنڈ ڈیوس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے تاکہ تحقیقات اور عدالتی کارروائی مکمل ہونے سے پہلے وہ ملک نا چھوڑ سکیں۔
امریکی شہری کا موقف ہے کہ اُس نے موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو 27 جنوری کو اپنے دفاع میں گولیاں ماریں کیوں کہ وہ اُسے لوٹنا چاہتے تھے۔