پاکستان کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر اور پھر بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگیوں میں پھنسی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے نئی حکومت کا وفد رواں ہفتے ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات کا آغاز کرے گا۔
یہ مذاکرات ملک میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پہلی بار ہو رہے ہیں اور حکومت نے اس مقصد کے لیے سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو اپنا اعلیٰ نمائندہ مقرر کیا ہے۔
قرض کی نئی قسط کے حصول کے لیے فریقین کے مابین مذاکرات پہلے ہی سے تعطل کا شکار ہوچکے تھے، جب مارچ میں عمران خان کی حکومت نے نہ صرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے گریز کیا تھا بلکہ انہیں کم از کم 90 روز کے لیے منجمد کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
اسی طرح بجلی کی قیمتوں میں بھی فی یونٹ پانچ روپے کمی کا اعلان کیا گیا تھا۔ لگ بھگ 370 ارب روپے (دو ارب 10 کروڑ ڈالرز) کے اس سبسڈی پیکیج پر آئی ایم ایف حکام نے اعتراض کیا تھا ۔ ابھی حکومت ادارے کو مطمئن کرنے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا اور یوں مذاکرات اب تک لاحاصل رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کی تجاویز پر عمل درآمد
معاشی امور کے تجزیہ کار اور کالم نویس علی خضر کا کہنا ہے کہ قرض پروگرام کے تحت ساتواں رویو کافی تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ساتواں اور آٹھواں رویو ایک ساتھ ہی ہوگا اور اس دوران وفاقی بجٹ بھی پیش ہونا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے پہلے ہی بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز دی ہے جس پر عمل کرنا نئی حکومت کے لیے کافی مشکل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایک جانب موجودہ حکومت نے بھی پیٹرول کی قیمتیں نہ بڑھا کر مقبولیت حاصل کرنے کے لیےسابق حکومت جیسا ہی عمل کیا ہے لیکن دوسری جانب اس سے معیشت کو نہ صرف بھاری نقصان کا سامنا ہے، بلکہ یہ آئی ایم ایف سے طے کردہ شرائط کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جس سے پروگرام پر عمل میں یعنی پاکستان کو قرض کی نئی قسط کے حصول میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کے پاس اس وقت 12 ہفتوں کی درآمدات کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بچے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی منظوری نہ ملنے کی وجہ سے دیگر مالیاتی ادارے بھی نئے قرض دینے سے کترارہے ہیں جس کی وجہ سے ملک کو آنے والے دنوں میں ادائیگیوں کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
’غیر ضروری درآمدات بند کرنی ہوں گی‘
ایک اور ماہر معاشیات اور ماضی میں وفاقی وزارتِ خزانہ میں فرائض انجام دینے والے ڈاکٹر اشفاق حسن کے خیال میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے اور اب کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی ادائیگیوں کا توازن بہتر بنانے کے لیے غیر ضروری درآمدات بند کرنی ہوں گی جب کہ حکومت کے تمام غیر ضروری اخراجات کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ ورنہ پاکستان کے لیے بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے پر قابو پانا مشکل ہی رہے گا۔
پاکستان کو رواں مالی سال کے اب تک کے نو ماہ میں برآمدات میں تقریباََ 25 فی صد اضافے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر میں اضافے کے باوجود 12 ارب ڈالرز کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے، جس کی بنیادی وجہ تجارتی خسارہ ہے جو اس سال اب تک 35 ارب ڈالرز سے تجاوز کرچکا ہے۔
بعض ماہرین کے بقول اس کی وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کے علاوہ توانائی اور دیگر غذائی اجناس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہےجب کہ رواں سال پاکستان نے کئی ارب ڈالرز کی کرونا ویکسین بھی درآمد کی۔اس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں سمیت بہت سی پرتعیش اشیا بھی بڑی مقدار میں منگوائی جا رہی ہیں جو تجارتی خسارے میں اضافے کا باعث ہے۔
عالمی ریٹنگ کے ادارے ’فچ ریٹنگز‘ کے مطابق ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18ارب 50 کروڑ ڈالرز رہنے کی توقع ہے، جو جی ڈی پی کے پانچ فی صد کے برابر ہوگا۔ دوسری جانب بعض معاشی ماہرین کے بقول اگر حکومت کی جانب سے تیل اور بجلی کی قیمتوں پر دی گئی سبسڈی برقرار رہتی ہے تو اس سے بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 10 فی صد تک پہنچنے کا امکان ہے۔
’حکومت ملک کو معاشی مشکل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘
ادھر ملک میں اب تک وزیرِ خزانہ سمیت کسی بھی وفاقی وزیر کا تقرر نہیں کیا جاسکا ہے جس کی وجہ سے معاشی پالیسیوں کا اعلان اور اس حوالے سے کوئی بھی فیصلے لینے میں تاخیر کا سامنا ہے۔
حکومت کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ حکومت ملک کو معاشی مشکل سے نکالنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے اور اس کے ساتھ عوام کو ہر ممکن ریلیف بھی فراہم کیا جائے گا۔
یہ بھی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستان کو چین کے قرض کے دوبارہ ملنے والی دو ارب 30 کروڑ ڈالرز کی رقم کی ری شیڈولنگ کا کام آخری مراحل میں ہے، جس سے پاکستان کے کم ہوتے ہوئے ذخائر کو سہارہ مل سکےگا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے رواں ماہ ہی سعودی عرب اور چین کے دورے کا بھی امکان ہے جس سے معاشی مبصرین کو امید ہے کہ ان ممالک سے آسان شرائط پر قرض ملنے کی توقع ہے۔
پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ساتواں رویو مکمل ہونے پر جہاں تقریبا 90 کروڑ ڈالرز ملنے کی توقع ہے، وہیں دیگر مالیاتی اداروں سے بھی رکی ہوئی رقوم ملنے کی امید ہوگی۔
یاد رہے اس پروگرام کے تحت پاکستان کو مجموعی طور پر چھ ارب ڈالرز کی رقم ملنی ہے جس میں سے اب تک تین ارب ڈالرز پاکستان کو مل چکے ہیں۔