جو کام سو روپے رشوت دے کر ہوتا تھا وہی کام ہزار روپے کی رشوت میں ہونے لگا۔ ایسی صورتحال میں مجھے کیا دلچسپی کہ ختم ہونے والی حکومت جمہوری تھی یا ملٹری۔
وائٹ ہاؤس، واشنگٹن —
’’آپ کو بہت مبارک ہو آپ کی جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کر لیے‘‘
مجھ سے اس مبارک باد کا اظہار امریکی نیوی کے ایک سینیئر اہلکار نے کیا جو یوم پاکستان کے حوالے سے، واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے دیے گئے ایک عشائیے میں شریک تھے۔
سفارتخانے کی جانب سے دیے گئے دعوت نامے کے مطابق شیری رحمان عشائیے کی میزبان تھیں لیکن عشائیے میں ہر نظر پاکستانی سفیر کو ڈھونڈ رہی تھی جو کہ ان دنوں پاکستان میں موجود ہیں۔
چند امریکی حکام کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کا سفارتی عملہ بھی عشائیے میں شریک تھا۔
مجھے عشائیے میں شریک مہمانوں (خصوصاً امریکہ) کی جانب سے پاکستان میں ہونے والے آئندہ انتخابات میں غیر معمولی دلچسپی دیکھ کر اس بات کا احساس ہونے لگا کہ امریکی صدارتی انتخابات کے بعد پاکستان کے پارلیمانی انتخابات امریکہ کے لیے سب سے اہم انتخابات ہیں۔
بہر حال امریکی اہلکار کی جانب سے پاکستان کی جمہوری حکومت کا سال مکمل ہونے پر ملنے والی مبارکباد کافی دیر تک میرے حلق سے نیچے نہیں اتری۔
میں سوچنے لگی کہ اگر یہ شخص مجھے ملالہ کی صحت یابی یا پاکستان کی جنوبی افریقہ سے کرکٹ میں فتح کی مبارکباد دیتا تو میں خوشی سے قبول کر لیتی۔ لیکن ایک عام پاکستانی ہونےکی حیثیت سے جمہوری طریقے سے حکومت کی معیاد ختم ہونے میں مجھے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے جبکہ حقیقت میں ، میں اپنے گھر میں پانچ سال تک بجلی کو ترستی رہی۔
گھر سے باہر نکلتے ہوئے دہشت گردی کا شکار ہونے کے خوف میں مبتلا رہی اور گھر سے باہر جانے والے باپ اور بھائی کی بخیریت واپسی کی دعائیں کرتی رہی۔ مہنگائی کے باعث متوسط طبقے سے غریب طبقے کا حصہ بن گئی۔
فرقہ وارانہ فسادات کا نشانہ بننے کے ڈر سے اپنی شناخت چھپانے لگی۔ جو کام سو روپے رشوت دے کر ہوتا تھا وہی کام ہزار روپے کی رشوت میں ہونے لگا۔ ایسی صورتحال میں مجھے کیا دلچسپی کہ ختم ہونے والی حکومت جمہوری تھی یا ملٹری۔
اور اب مئی میں ہونے والے انتخابات کے بعد ایک اور جمہوری حکومت کے قیام کی امید ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان مسائل کے حل کی واقع خلوص نیت سے کوشش کی جائے گی یا ایک بار پھر جمہوریت کا جُھنجھنا عوام کے ہاتھ میں پکڑا دیا جائے گا۔
مجھ سے اس مبارک باد کا اظہار امریکی نیوی کے ایک سینیئر اہلکار نے کیا جو یوم پاکستان کے حوالے سے، واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے دیے گئے ایک عشائیے میں شریک تھے۔
سفارتخانے کی جانب سے دیے گئے دعوت نامے کے مطابق شیری رحمان عشائیے کی میزبان تھیں لیکن عشائیے میں ہر نظر پاکستانی سفیر کو ڈھونڈ رہی تھی جو کہ ان دنوں پاکستان میں موجود ہیں۔
چند امریکی حکام کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کا سفارتی عملہ بھی عشائیے میں شریک تھا۔
مجھے عشائیے میں شریک مہمانوں (خصوصاً امریکہ) کی جانب سے پاکستان میں ہونے والے آئندہ انتخابات میں غیر معمولی دلچسپی دیکھ کر اس بات کا احساس ہونے لگا کہ امریکی صدارتی انتخابات کے بعد پاکستان کے پارلیمانی انتخابات امریکہ کے لیے سب سے اہم انتخابات ہیں۔
میں سوچنے لگی کہ اگر یہ شخص مجھے ملالہ کی صحت یابی یا پاکستان کی جنوبی افریقہ سے کرکٹ میں فتح کی مبارکباد دیتا تو میں خوشی سے قبول کر لیتی۔ لیکن ایک عام پاکستانی ہونےکی حیثیت سے جمہوری طریقے سے حکومت کی معیاد ختم ہونے میں مجھے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے جبکہ حقیقت میں ، میں اپنے گھر میں پانچ سال تک بجلی کو ترستی رہی۔
گھر سے باہر نکلتے ہوئے دہشت گردی کا شکار ہونے کے خوف میں مبتلا رہی اور گھر سے باہر جانے والے باپ اور بھائی کی بخیریت واپسی کی دعائیں کرتی رہی۔ مہنگائی کے باعث متوسط طبقے سے غریب طبقے کا حصہ بن گئی۔
فرقہ وارانہ فسادات کا نشانہ بننے کے ڈر سے اپنی شناخت چھپانے لگی۔ جو کام سو روپے رشوت دے کر ہوتا تھا وہی کام ہزار روپے کی رشوت میں ہونے لگا۔ ایسی صورتحال میں مجھے کیا دلچسپی کہ ختم ہونے والی حکومت جمہوری تھی یا ملٹری۔
اور اب مئی میں ہونے والے انتخابات کے بعد ایک اور جمہوری حکومت کے قیام کی امید ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان مسائل کے حل کی واقع خلوص نیت سے کوشش کی جائے گی یا ایک بار پھر جمہوریت کا جُھنجھنا عوام کے ہاتھ میں پکڑا دیا جائے گا۔