بدھ سے شروع ہونے والی دو روزہ بات چیت میں امن و سلامتی سے متعلق اُمور پر گفتگو ہو گی۔
پاک بھارت امن مذاکرات کے آئندہ دور میں شرکت کے لیے پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی منگل کو نئی دہلی پہنچ گئے ہیں۔
اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ سے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ بدھ سے شروع ہونے والی دو روزہ بات چیت میں امن و سلامتی سے متعلق اُمور پر گفتگو ہو گی۔
سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات میں اعتماد سازی سے متعلق اقدامات، تنازع کشمیر اور دوطرفہ عوامی رابطوں کو وسعت دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
’’مذاکرات میں دونوں فریقین تنازع کشمیر کے منصفانہ اور پُر امن حل کے لیے تجاویز پر بھی غور کریں گے۔‘‘
بیان میں کہا گیا کہ مذاکرات کا یہ دور دیگر دوطرفہ اُمور پر ایک دوسرے کا موقف جاننے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔
پاکستان اور بھارت کے سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات بھی ہو گی جس کی حتمی تاریخ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔
پاک بھارت تعلقات میں 2011ء کے اوائل سے نمایاں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے لیے کئی عملی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔
لیکن ایک سال سے زائد عرصے کے دوران بات چیت میں سیاچن اور سر کریک جیسے دیرینہ مسائل پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ سے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ بدھ سے شروع ہونے والی دو روزہ بات چیت میں امن و سلامتی سے متعلق اُمور پر گفتگو ہو گی۔
سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات میں اعتماد سازی سے متعلق اقدامات، تنازع کشمیر اور دوطرفہ عوامی رابطوں کو وسعت دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
’’مذاکرات میں دونوں فریقین تنازع کشمیر کے منصفانہ اور پُر امن حل کے لیے تجاویز پر بھی غور کریں گے۔‘‘
بیان میں کہا گیا کہ مذاکرات کا یہ دور دیگر دوطرفہ اُمور پر ایک دوسرے کا موقف جاننے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔
پاکستان اور بھارت کے سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات بھی ہو گی جس کی حتمی تاریخ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔
پاک بھارت تعلقات میں 2011ء کے اوائل سے نمایاں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے لیے کئی عملی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔
لیکن ایک سال سے زائد عرصے کے دوران بات چیت میں سیاچن اور سر کریک جیسے دیرینہ مسائل پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔