امریکی قیادت کو لکھے گئے متنازع خط کی ’’مناسب‘‘ تحقیقات کے لیے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی سے استعفیٰ طلب کر کے اُنھیں اس عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
یہ اعلان وزیر اعظم گیلانی اور حسین حقانی کے مابین منگل کو ایک ملاقات کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان میں حکومت کے ترجمان نے کیا ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے مبینہ خط سے پیدا ہونے والے تنازع کی موزوں سطح پر مفصل تحقیقات کے احکامات بھی جاری کر دیے ہیں۔
’’مبینہ خط کی تیاری اور بعد ازاں اس کے امریکی حکام کو موصول ہونے کی تصدیق کے بعد قومی مفاد کو مدد نظر رکھتے ہوئے اصل حقائق کا با ضابطہ طور پر تعین نا گزیر ہو گیا ہے۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے دوران تمام متعلقہ افراد کو اپنا موقف پیش کرنے کے لیے مناسب اور منصفانہ موقع فراہم کیا جائے گا۔ ’’تحقیقات غیر جانبدارانہ، معروضی اور بلا تعصب کی جائیں گی۔‘‘
اس سے قبل حسین حقانی نے انٹرنیٹ پر مختصر پیغامات کے تبادلے کے مشہور ذریعے ’’ٹوئیٹر‘‘ پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ اُنھوں نے وزیر اعظم گیلانی سے بطور سفیر اُن کا استعفٰی منظور کرنے کی درخواست کی ہے۔
’’مجھے عدم برداشت سے پاک ایک نئے پاکستان کی تعمیر میں خاصہ کردار ادا کرنا ہے۔ اس پر اپنی توانائیاں مرکوز کروں گا۔‘‘
پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ اُنھوں نے حسین حقانی کی ہدایت پر صدر آصف علی زرداری سے منسوب ایک خط مئی میں اُس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن کو پہنچایا تھا جس میں پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی برطرفی کے سلسلے میں امریکی مدد طلب کی گئی تھی۔
منصور اعجاز کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے متنازع خط ایبٹ آباد میں 2 مئی کو اُسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن کے ایک ہفتے بعد امریکی حکام تک پہنچایا اور اس خط میں صدر زرداری کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ امریکی آپریشن پر پاکستانی فوجی قیادت نالاں ہے اور وہ منتخب حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قابض ہونے کی تیاریاں کر رہی ہے۔
پاکستانی سفیر پہلے ہی متنازع خط کی تیاری اور اس کی ترسیل سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں، لیکن منصور اعجاز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اپنے دعویٰ کی سچائی ثابت کرنے کے لیے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں جنھیں وہ گزشتہ ماہ لندن میں ہونے والی ایک خفییہ ملاقات میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کو بھی پیش کر چکے ہیں۔