خیبر ایجنیسی میں سیکورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے مابین جھڑپوں کے باعث اس علاقے سے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ بددستور جاری ہے۔
پاکستان میں کام کرنے والی ملکی اور غیر ملکی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خیبر ایجنسی سے بے دخل ہونے والے 5 لاکھ افراد میں سے 40 فیصد پناگاہوں کی تلاش میں ہیں اور تقریباً 80 فیصد کو مناسب طبی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔
بین الاقوامی امدادی ادارے آکسفام کے کنٹری ڈائریکٹر عارف جبار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں میں سے صرف 10 فیصد خاندان پشاور کے نزدیک جلوزئی کیمپ میں مقیم ہیں جبکہ وہ خاندان جو کیمپ سے باہر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں اقارب کے پاس رہائش پذیر ہیں انہیں زیادہ مسائل کا سامنا ہے
’’ضرورت سب کو ہے لیکن جو 10 فیصد کیمپ میں رہ رہے ہیں انہیں کچھ بنیادی چیزیں مل رہی ہیں لیکن جو نوے فیصد باہر رہ رہے ہیں وہ بہت متاثر ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ جب لوگ کیمپ میں اندراج کے لیے آتے ہیں تو انہیں خوراک مل جاتی ہے لیکن جب وہ واپس جاتے ہیں تو ان کے لیے نہ تو تعلیم کی سہولت ہے اور نہ ہی صحت کی۔
آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے میں اندرون ملک بے دخل ہونے والے افراد کے معاون فیض محمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تمام رجسٹرڈ افراد کو حکومت کی جانب سے سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔
’’جو کیمپ سے باہر رہتے ہیں انہیں صرف ٹینٹ نہیں ملتا اور باقی تمام سہولہتیں تمام چیزیں خوراک، بستر چٹائی، برتن ، صابن سمیت حفظان صحت کی دیگرچیزیں تمام رجسٹر لوگوں کو ملتی ہیں چاہے وہ کیمپ میں رہیں یا کیمپ سے باہر‘‘۔
انھوں نے بتایا کہ مارچ میں خیبر ایجنیسی سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور نقل مکانی کرنے والے 52،000 سے زائد خاندانوں کا اندراج ہو چکا ہے جن میں جلوزئی کیمپ میں ساڑھے دس ہزار خاندان مقیم ہیں جبکہ 41 ہزار 5 سو خاندان کیمپ سے باہر ہیں۔
پشاور اور دیگر قریبی اضلاع میں شدت پسندوں کے حملوں میں تیزی کے بعد حکام نے افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی علاقے میں رواں سال کے اوائل سے بھرپور فوجی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں کیوں کہ ان کے بقول تشدد کے واقعات میں ملوث اکثر افراد کا تعلق خیبر ایجنسی میں سرگرم کالعدم تنظیم لشکر اسلام اور دیگر شدت پسند گروہوں سے ہے۔