بلوچستان میں شمسی ایئربیس کو خالی کرنے کا امریکی فیصلہ پاکستان کے لیے ایک بڑی سیاسی جیت قرار دی جا رہی ہے لیکن اعلٰی حکومتی عہدے داروں نے اعتراف کیا ہے اس پیش رفت کے قبائلی علاقوں میں امریکہ کے ڈرون حملوں کی متنازع مہم متاثر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔
پاکستان نے 26 نومبر کو اپنی سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے مہلک حملے پراحتجاج کرتے ہوئے افغانستان میں غیر ملکی افواج کی سپلائی لائن کاٹنے اور امریکہ کو 15 روز میں شمسی ایئربیس خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا۔
امریکی اہلکاروں نےکوئٹہ سے 320 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع اس ہوائی اڈے سے اپنا انخلا اتوار کو مکمل کر لیا جس کے بعد شمسی ایئربیس پاکستانی فوج نے اپنے کنٹرول میں لے لی۔
لیکن پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک کہتے ہیں کہ امریکہ خود یہ بیان دے چکا ہے کہ ڈرون حملوں کے لیے اس نے دوسرے اڈوں کا بندوبست کر رکھا ہے۔
اتوار کی شب اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ڈرون طیاروں کی مہم کے بارے میں خیال آرائی قبل از وقت ہو گی کیونکہ امریکہ کے پاس افغانستان میں بھی اڈے موجود ہیں جبکہ ان کے کنٹرول کا نظام امریکی ریاست ایریزونا میں قائم ہے۔
’’ظاہر ہے اُن کے مخلتف ایئر بیسز ہیں۔ آپ نے (امریکہ کا) یہ بیان بھی دیکھا کہ اگر ہمیں (امریکہ کو) کچھ کرنا ہو گا تو ہمارے پاس اڈے ہیں۔ ہم سب کا بنیادی مطالبہ تھا کہ شمسی ایئر بیس کسی غیر ملکی طاقت کے پاس نہیں ہونا چاہیئے تھا، وہ پورا ہو چکا ہے۔ جہاں تک یہ پیش گوئی کرنا کہ اس کے بعد شاید ڈرون حملے بند ہو جائیں گے اس پر میں کہنے سے قاصر ہوں کیوں کہ یہ فیصلہ کسی اور (امریکہ) کو کرنا ہے اور وہ پہلے بھی ہماری کون سی بات سنتے رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف ڈرون سے مبینہ امریکی میزائل حملوں میں حالیہ برسوں میں بہت تیزی آئی ہے۔ لیکن مہمند ایجنسی میں پاکستانی فوجی چوکیوں پر نیٹو کے حملے کے بعد سے یہ سلسلہ بظاہر رک چکا ہے۔
آخری ڈرون حملہ 17 نومبر کو شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں کیا گیا تھا جس میں اطلاعات کے مطابق چھ مشتبہ جنگجو ہلاک ہوئے تھے اور تب سے آج تک پاکستانی قبائلی علاقوں میں امریکی میزائل حملہ نہیں کیا گیا ہے۔
2004ء میں شروع ہونے والی ڈرون حملوں کی اس مہم میں پہلی مرتبہ اتنا طویل وقفہ آیا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ڈرون کہلانے والے بغیر پائلٹ کے طیاروں سے میزائل حملوں میں افغان سرحد سے جڑے پاکستانی قبائلی علاقوں میں القاعدہ، افغان طالبان اور ان کے مقامی حامیوں کے کئی اہم کمانڈروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
لندن میں قائم غیر سرکاری تنظیم ’بیورو آف انوسٹی گیٹیو جرنلزم‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی قبائلی پٹی پر امریکی ڈرون حملوں کی تعداد 300 سے تجاوز کر چکی ہے۔
لیکن ان کارروائیوں میں بے گناہ شہریوں بالخصوص عورتوں اور بچوں کی ہلاکت کی اطلاعات نے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو بھی بھڑکایا ہے۔
تاہم نیٹو کے حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستانی فوجی اور سیاسی رہنماؤں نے عندیہ دیا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی نوعیت کے طیارے کو مارگرانے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔
وزیر داخلہ رحمن ملک کہتے ہیں کہ مئی میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن کے بعد پارلیمان کی مشترکہ قراداد میں بھی مستقبل میں کسی بھی فضائی کارروائی کا جواب دینے کی منظوری دی گئی تھی۔
’’تو ڈرون آئے یا کوئی اورچیز آئے، جب یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ہم نے جواب دینا ہے تو انشااللہ جواب دیا جائے گا۔ ہماری مسلح افواج، حکومت اور اس کے جتنے ادارے ہیں ان کے پاس ان معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہے۔‘‘