پاکستان میں حالیہ دنوں کے دوران ملکی حدود میں بغیر پائلٹ کے مبینہ امریکی جاسو س طیاروں کے حملوں کے خلاف احتجاج میں شدت آئی ہے اور پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی طرف سے بھی ان حملوں کی مذمت کی گئی ہے ۔
ان حملوں کے خلاف عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے زیراہتمام صوبہ خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت پشاور میں ہفتے کو دو روزہ دھرنے کا آغاز ہوا۔ ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے کی وجہ سے پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے راستے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لیے رسدکی ترسیل کا سلسلہ بھی معطل ہو گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق پشاور کے مختلف مضافاتی علاقوں میں رسد لے جانے والے بیسیوں ٹرک کھڑے کر دیئے گئے ہیں۔
عمران خان اس دھرنے میں شرکت کے لیے اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کے راستے پشاور پہنچے اور اُنھوں نے کئی مقامات پر پہلے سے موجود اپنی جماعت کے کارکنوں سے بھی خطاب کیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے اس احتجاجی دھرنے میں شرکت کے لیے سیاسی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی اور ہر طبقہ فکرسے تعلق رکھنے والے افراد کو شرکت کی دعوت دی ہے۔
حیات آباد میں باغ ناران میں ہونے والے اس احتجاجی دھرنے میں شریک مظاہرین کی حفاظت کے لیے بھی خصوصی انتظامات کیے گئے ۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان ڈرون حملوں کے معاملے پر کشیدگی پائی جاتی ہے اور وزیراعظم گیلانی نے کہا ہے کہ اُنھوں نے یہ معاملہ امریکی حکام کے سامنے اُٹھایا ہے کہ ان حملوں سے دہشت گردی کے خلاف حکومت کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ایک روز قبل پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیرنے واشنگٹن میں صدر براک اوباما کے خصوصی نمائندے مارک گروسمین سے ہونے والی ملاقات میں بھی یہ معاملہ اُٹھایا اور کہا کہ امریکہ میں اِن حملوں کو دہشت گردی کیخلاف جنگ کی اپنی حکمت عملی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں اکثریت کی سوچ اِس کے برعکس ہے ۔