ماشکیل کی دکانوں میں زیادہ سامان حتیٰ کہ اشیائے خوردنی بھی ایران سے لایا جاتا تھا جن کی قیمتیں پاکستانی اشیاء سے 20 فیصد کم ہوا کرتی تھیں۔
کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغر بی صوبے بلوچستان میں منگل کو آنے والے زلزلے کی تباہی کے آثار پانچ روز گزرنے کے بعد بھی واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
ایران کی سرحد سے صرف 15 کلومیٹر پاکستانی علاقہ ماشکیل تقریباً 20 ہزار نفوس پر مشتمل ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں زلزلے سے پہلے کا کاروبار زندگی اب یکسر مختلف نظر آتا ہے۔
یہاں زیادہ تر گھر مٹی کے بنے ہوئے تھے اور زلزلے سے مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ بچ جانے والے گھروں کو بھی زلزلے سے جزوی نقصان پہنچا ہے اور ان میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
مقامی لوگ بعد از زلزلہ جھٹکوں کے خوف سے تاحال کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
پاک ایران سرحد سے صرف چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باعث ماشکیل میں رہنے والے تقر یباً تمام لوگوں کے پاس دونوں ممالک کی دُہر ی شہریت ہے۔ یہاں کے بازار کی 80 فیصد دکانیں تباہ ہوچکی ہیں۔
ان دکانوں میں زیادہ سامان حتیٰ کہ اشیائے خوردنی بھی ایران سے لایا جاتا تھا جن کی قیمتیں پاکستانی اشیاء سے 20 فیصد کم ہوا کرتی تھیں۔ دالبندین بازار کے لوگوں کا سب سے اہم کاروبار ایران سے غیر قانونی پٹر ول کی برآمد تھی جو ایران سے بڑے بڑے جری کینوں میں ایران کی بنی ہوئی سیمرغ نامی گاڑیوں اور پک اپس میں لایا جاتا۔ ایران کی نمبر پلیٹ والی گاڑیاں اور موٹر سائیکل بھی یہاں اکثریت کے زیر استعمال ہیں۔
ماشکیل میں لڑکیوں کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا تاہم لڑکوں کے لیے قائم ایک پرائمری اسکول تھا جو زلزلے میں منہدم ہو گیا۔ اس چھوٹے سے سر حدی ٹاؤن میں پینے کے پانی کا ذائقہ نمکین ہے جس کی وجہ سے لوگ دوسرے علاقوں سے پانی لانے پر مجبور ہیں۔ بیس ہزار کی آبادی کے لیے صحت عامہ کا کوئی انتظام نہیں تھا بنیادی صحت مر کز اور نہ ہی کو ئی اسپتال ہے۔
زلزلے کے نتیجے میں مکان سے محروم ہونے والی ایک خاتون دُر بی بی نے وائس اف امریکہ کو بتایا کہ زلزلے نے اُ ن سے ان کا بیٹا عبدالسلام بھی چھین لیا۔ وہ دوسری جماعت کا طالب علم تھا اور زلزلے کے وقت کمرے میں سو رہا تھا کہ زلزلے سے گرنے والے مکان کے ملبے میں دب کر ہلاک ہوگیا۔ عبدالسلام کی لاش کو اس کے والد اور بھائیوں نے گھر کی مٹی سے نکال کر قبر کی مٹی کے سپرد کردیا۔
دُر بی بی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر زلزلہ زدگان کی مدد کر نی ہے تو وہ امداد سر داروں کے ذریعے تقسیم کرنے کے بجائے عام لوگوں یا سابق نا ظمین کے ذریعے تقسیم کی جائے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
زلزلے میں زخمی ہو نے والے بعض افراد کو علاج ومعالجے کے لیے ایران بھی لے جایا گیا تھا جبکہ ماشکیل ٹاؤن میں زلزلے میں زخمی ہو نے والے افراد ، بچوں اور خواتین کے لیے ایف سی کے قلعے میں میڈ یکل کیمپ قائم کیا گیا تھا جہاں زخمیوں کا علاج کیا جارہا تھا جبکہ شدید زخمیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کو ئٹہ بھی منتقل کیا گیا۔
کیمپ کے انچارج فر نٹئیر کور کے کرنل ثاقب الہی نے بتایا کہ زلزلے سے اب تک 35 افراد ہلاک 70 زخمی ہو چکے ہیں تاہم ہلاکتوں کی صحیح تعداد کا علم چند روز کے بعد کیے جانے والے سروے کے بعد سامنے آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایف سی کو حکومت کی طر ف سے فراہم کردہ 300 خیمے یہاں کچھ لوگوں میں تقسیم کئے گئے ہیں لیکن جس پیمانے پر یہاں تباہی ہوئی اُس کے مطابق یہاں کم ازکم ایک ہزار خیموں کی ضرورت ہے ۔
ایران کی سرحد سے صرف 15 کلومیٹر پاکستانی علاقہ ماشکیل تقریباً 20 ہزار نفوس پر مشتمل ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں زلزلے سے پہلے کا کاروبار زندگی اب یکسر مختلف نظر آتا ہے۔
یہاں زیادہ تر گھر مٹی کے بنے ہوئے تھے اور زلزلے سے مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ بچ جانے والے گھروں کو بھی زلزلے سے جزوی نقصان پہنچا ہے اور ان میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
مقامی لوگ بعد از زلزلہ جھٹکوں کے خوف سے تاحال کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
پاک ایران سرحد سے صرف چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باعث ماشکیل میں رہنے والے تقر یباً تمام لوگوں کے پاس دونوں ممالک کی دُہر ی شہریت ہے۔ یہاں کے بازار کی 80 فیصد دکانیں تباہ ہوچکی ہیں۔
ان دکانوں میں زیادہ سامان حتیٰ کہ اشیائے خوردنی بھی ایران سے لایا جاتا تھا جن کی قیمتیں پاکستانی اشیاء سے 20 فیصد کم ہوا کرتی تھیں۔ دالبندین بازار کے لوگوں کا سب سے اہم کاروبار ایران سے غیر قانونی پٹر ول کی برآمد تھی جو ایران سے بڑے بڑے جری کینوں میں ایران کی بنی ہوئی سیمرغ نامی گاڑیوں اور پک اپس میں لایا جاتا۔ ایران کی نمبر پلیٹ والی گاڑیاں اور موٹر سائیکل بھی یہاں اکثریت کے زیر استعمال ہیں۔
ماشکیل میں لڑکیوں کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا تاہم لڑکوں کے لیے قائم ایک پرائمری اسکول تھا جو زلزلے میں منہدم ہو گیا۔ اس چھوٹے سے سر حدی ٹاؤن میں پینے کے پانی کا ذائقہ نمکین ہے جس کی وجہ سے لوگ دوسرے علاقوں سے پانی لانے پر مجبور ہیں۔ بیس ہزار کی آبادی کے لیے صحت عامہ کا کوئی انتظام نہیں تھا بنیادی صحت مر کز اور نہ ہی کو ئی اسپتال ہے۔
زلزلے کے نتیجے میں مکان سے محروم ہونے والی ایک خاتون دُر بی بی نے وائس اف امریکہ کو بتایا کہ زلزلے نے اُ ن سے ان کا بیٹا عبدالسلام بھی چھین لیا۔ وہ دوسری جماعت کا طالب علم تھا اور زلزلے کے وقت کمرے میں سو رہا تھا کہ زلزلے سے گرنے والے مکان کے ملبے میں دب کر ہلاک ہوگیا۔ عبدالسلام کی لاش کو اس کے والد اور بھائیوں نے گھر کی مٹی سے نکال کر قبر کی مٹی کے سپرد کردیا۔
دُر بی بی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر زلزلہ زدگان کی مدد کر نی ہے تو وہ امداد سر داروں کے ذریعے تقسیم کرنے کے بجائے عام لوگوں یا سابق نا ظمین کے ذریعے تقسیم کی جائے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
زلزلے میں زخمی ہو نے والے بعض افراد کو علاج ومعالجے کے لیے ایران بھی لے جایا گیا تھا جبکہ ماشکیل ٹاؤن میں زلزلے میں زخمی ہو نے والے افراد ، بچوں اور خواتین کے لیے ایف سی کے قلعے میں میڈ یکل کیمپ قائم کیا گیا تھا جہاں زخمیوں کا علاج کیا جارہا تھا جبکہ شدید زخمیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کو ئٹہ بھی منتقل کیا گیا۔
کیمپ کے انچارج فر نٹئیر کور کے کرنل ثاقب الہی نے بتایا کہ زلزلے سے اب تک 35 افراد ہلاک 70 زخمی ہو چکے ہیں تاہم ہلاکتوں کی صحیح تعداد کا علم چند روز کے بعد کیے جانے والے سروے کے بعد سامنے آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایف سی کو حکومت کی طر ف سے فراہم کردہ 300 خیمے یہاں کچھ لوگوں میں تقسیم کئے گئے ہیں لیکن جس پیمانے پر یہاں تباہی ہوئی اُس کے مطابق یہاں کم ازکم ایک ہزار خیموں کی ضرورت ہے ۔