بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو درست راہ پر لانے کے لئے توانائی کے شعبے اور ٹیکس وصولی کے نظام میں اصلاحات متعارف کرنا ناگزیر ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 13/2012 میں چند بنیادی معاشی شعبوں میں متعین کردہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے جن میں ٹیکسوں کی وصولی، مجموعی قومی پیداوار کی شرح اور بجٹ کا خسارہ شامل ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منگل کو رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ چار اعشاریہ تین فیصد کی بجائے مجموعی پیداوار کی شرح 3 اعشاریہ چھ فیصد رہی جبکہ سرمایہ کاری کی شرح میں اعشاریہ سات فیصد کمی دیکھی گئی۔ مالی سال 13۔2012 میں صنعتی اور زرعی پیداوار میں بھی متوقع اضافہ نا ہوسکا۔
اگرچہ وزیر خزانہ نے بجٹ خسارے کے کوئی اعداد وشمار نہیں دیے مگر ان کا کہنا تھا کہ یہ چار اعشاریہ سات فیصد سے ’’بہت زیادہ‘‘ ہے۔
پاکستان کا مرکزی بنک (اسٹیٹ بنک آف پاکستان) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بجٹ کا خسارہ 7 فیصد تک ہو سکتا ہے
اسحاق ڈار کا کہنا تھا ’’ہماری معیشت کی حالت سنگین میکرو اکنامک چیلنجز کا شکار ہے۔ شدت پسندی کے برابر ہمارے لئے بڑا چیلنج معیشت کو واپس بہتر حالت میں لانا ہے۔ اس کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر اسٹرکچرل اصلاحات کرنی ہوں گی اور کچھ تلخ فیصلے بھی کرنا ہوں گے۔‘‘
تاہم انھوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی بھر پور کوشش کی جائے گی۔
سینئر صحافی شاہد الرحمن پاکستان کی معیشت پر ’’ہو اونز پاکستان‘‘ اور ’’پاکستان لوسٹ ساورنٹی‘‘ نامی کتابوں کے مصنف ہیں
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کم سرمایہ کاری، بد امنی، توانائی کا بحران اور سرمایہ کاروں کے بیرون ملک سرمایہ کاری کی طرف بڑھتے رجحان کے باعث مقررہ اہداف حاصل نا ہو سکے۔
’’حقیقت پسندانہ ٹارگٹ رکھ سکنا تو بہت مشکل ہے۔ کوئی حکومت یہ نہیں کہے گی کہ مہنگائی میں کمی نہیں ہوگی۔ شرح نمو میں 6 سے 8 فیصد اضافہ نہیں ہوگا یا بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ موجودہ حکومت بھی ٹارگٹ یہی رکھے گی۔ امریکہ سے ہم نے کچھ پیسے لینے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے پر مذاکرات کرنے ہیں تو ان کچھ توقعات پر ٹارگٹ طے کیے جائیں گے۔‘‘
بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو درست راہ پر لانے کے لئے توانائی کے شعبے اور ٹیکس وصولی کے نظام میں اصلاحات متعارف کرنا ناگزیر ہے۔ توانائی کے شعبے میں زیرگردش قرضے کی مد میں حکومت کو 5 سو ارب روپے تیل کی کمپنیوں کو ادا کرنے ہیں جبکہ وزیر خزانہ کے مطابق پاکستان کا مجموعی قرضہ 14 سو ارب روپے ہے۔
شاہد الرحمان کا کہتے ہیں ’’ٹیکس بڑھانے کا بنیادی فلسفہ ہے کہ جس کے شانے چوڑے ہوں اس پر اور بوجھ ڈالیں مگر یہاں الٹا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں آپ سنتے ہیں آج کل ریکارڈ چڑھاؤ جس وجہ سے کچھ لوگ اربوں بنارہے ہیں کیا وہ ٹیکس دے رہے ہیں یا دس لاکھ کا پلاٹ کروڑوں روپے پر بیچنے والا منافع پر ٹیکس دیتا ہے۔ ہم نے ویلتھ ٹیکس ہی ختم کر ڈالا۔ تو چھوٹ دینے سے تو آمدن نہیں بڑھتی۔‘‘
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق روان مالی سال 13۔2012 میں محصولات کے مقررہ کردہ ہدف سے 350 ارب روپے کم رہی وزیر خزانہ بدھ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کریں گے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منگل کو رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ چار اعشاریہ تین فیصد کی بجائے مجموعی پیداوار کی شرح 3 اعشاریہ چھ فیصد رہی جبکہ سرمایہ کاری کی شرح میں اعشاریہ سات فیصد کمی دیکھی گئی۔ مالی سال 13۔2012 میں صنعتی اور زرعی پیداوار میں بھی متوقع اضافہ نا ہوسکا۔
اگرچہ وزیر خزانہ نے بجٹ خسارے کے کوئی اعداد وشمار نہیں دیے مگر ان کا کہنا تھا کہ یہ چار اعشاریہ سات فیصد سے ’’بہت زیادہ‘‘ ہے۔
پاکستان کا مرکزی بنک (اسٹیٹ بنک آف پاکستان) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بجٹ کا خسارہ 7 فیصد تک ہو سکتا ہے
اسحاق ڈار کا کہنا تھا ’’ہماری معیشت کی حالت سنگین میکرو اکنامک چیلنجز کا شکار ہے۔ شدت پسندی کے برابر ہمارے لئے بڑا چیلنج معیشت کو واپس بہتر حالت میں لانا ہے۔ اس کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر اسٹرکچرل اصلاحات کرنی ہوں گی اور کچھ تلخ فیصلے بھی کرنا ہوں گے۔‘‘
تاہم انھوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی بھر پور کوشش کی جائے گی۔
سینئر صحافی شاہد الرحمن پاکستان کی معیشت پر ’’ہو اونز پاکستان‘‘ اور ’’پاکستان لوسٹ ساورنٹی‘‘ نامی کتابوں کے مصنف ہیں
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کم سرمایہ کاری، بد امنی، توانائی کا بحران اور سرمایہ کاروں کے بیرون ملک سرمایہ کاری کی طرف بڑھتے رجحان کے باعث مقررہ اہداف حاصل نا ہو سکے۔
’’حقیقت پسندانہ ٹارگٹ رکھ سکنا تو بہت مشکل ہے۔ کوئی حکومت یہ نہیں کہے گی کہ مہنگائی میں کمی نہیں ہوگی۔ شرح نمو میں 6 سے 8 فیصد اضافہ نہیں ہوگا یا بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ موجودہ حکومت بھی ٹارگٹ یہی رکھے گی۔ امریکہ سے ہم نے کچھ پیسے لینے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے پر مذاکرات کرنے ہیں تو ان کچھ توقعات پر ٹارگٹ طے کیے جائیں گے۔‘‘
بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو درست راہ پر لانے کے لئے توانائی کے شعبے اور ٹیکس وصولی کے نظام میں اصلاحات متعارف کرنا ناگزیر ہے۔ توانائی کے شعبے میں زیرگردش قرضے کی مد میں حکومت کو 5 سو ارب روپے تیل کی کمپنیوں کو ادا کرنے ہیں جبکہ وزیر خزانہ کے مطابق پاکستان کا مجموعی قرضہ 14 سو ارب روپے ہے۔
شاہد الرحمان کا کہتے ہیں ’’ٹیکس بڑھانے کا بنیادی فلسفہ ہے کہ جس کے شانے چوڑے ہوں اس پر اور بوجھ ڈالیں مگر یہاں الٹا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں آپ سنتے ہیں آج کل ریکارڈ چڑھاؤ جس وجہ سے کچھ لوگ اربوں بنارہے ہیں کیا وہ ٹیکس دے رہے ہیں یا دس لاکھ کا پلاٹ کروڑوں روپے پر بیچنے والا منافع پر ٹیکس دیتا ہے۔ ہم نے ویلتھ ٹیکس ہی ختم کر ڈالا۔ تو چھوٹ دینے سے تو آمدن نہیں بڑھتی۔‘‘
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق روان مالی سال 13۔2012 میں محصولات کے مقررہ کردہ ہدف سے 350 ارب روپے کم رہی وزیر خزانہ بدھ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کریں گے۔