پاکستان میں معاشی بحالی کس طرح ممکن ہے؟

پاکستانی سیلاب زدگان خیموں میں فلاکت بار زندگی گزارنے پر مجبور ہیں

پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے ایک ایسے مشکل دور سے گزر رہا ہے جب اسے نہ صرف حالیہ سیلابوں سے ہونے والی تباہی، دہشت گردی اور توانائی کی قلت جیسے مسائل سے نمٹنا ہے بلکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو بھی روکنا ہے۔ ان چیلنجز سے مقابلے کے لیے حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں ، اس پر گذشتہ دنوں ایک معروف امریکی تھنک ٹینک وڈروولسن میں ماہرین نے اپنی تجاویز پیش کیں۔

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں کی معاشی صورتحال کے اعداد و شمار گذشتہ ایک دہائی سے بد سے بدترین کی جانب اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جنرل مشرف کے زمانے میں معاشی ترقی کے بہت دعوے کیے گئے لیکن حکومتی اقدامات دیرپا معاشی استحکام نہیں پیدا کر سکے۔
پاکستانی معیشت کے تقابلی جائزے کے حوالے سے واشنگٹن کے وڈرو ولسن سنٹر میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں پرویز حسن اورشاہد جاوید برکی نے پاکستان کی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا۔

اس مذاکرے کا عنوان تھا پاکستانی معیشت کے دگرگوں حالات اور ان سے باہر نکلنے کے اسباب کا جائزہ ۔ جنرل جہانگیر کرامت نے اس عنوان کو موجودہ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بہت موزوں قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے کھائی جیسے موجودہ حالات سے نکالنا اس کی اولین ضرورت ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ جمہوری حکومت کو معاشی پریشانیاں اور ناہمواریاں وراثت میں ملی ہیں۔ مشرف دور میں معیشت جس تیزی کے ساتھ اوپر گئی تھی اسی تیزی سے زوال پذیربھی ہوئی۔

پاکستانی عوام گذشتہ بہت برسوں سے مہنگائی میں مسلسل اضافے پر نالاں دکھائی دینے کے ساتھ ساتھ اسے حکومتی نااہلی سے تعبیر کرتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں پٹرول، چینی، آٹے، گھی، دالوں اور روزمرہ استعمال کی اشیاء میں کئی گنا زیادہ اضافہ اور ذخیرہ اندوزوں کی جانب سے ان اجناس کی وقتا فوقتا قلت عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ جبکہ حالیہ سیلابوں نے پاکستان کے بنیادی انتظامی و معاشی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

جہانگیر کرامت کا کہناتھا کہ اس وقت پاکستان کی معاشی صورتحال کے حوالے سے کچھ کہنا غلط ہوگا کیونکہ ملک میں سیلابوں کے باعث معاشی صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے۔ یہ سیلاب گذشتہ کئی برسوں کی تباہیوں اور مشکلات میں مزید اضافہ کر گئے ہیں۔

شاہد جاوید برکی نے پاکستان میں حالیہ سیلابوں سے ہونے والی تباہی اور مستقل بنیادوں پر ہونے والے بم دھماکوں کے ہولناک نتائج کو ملک کے لیے خطرناک صورتحال قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلابوں اور دھماکوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دور رس منصوبوں پر عمل ضروری ہے، لیکن پاکستانی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے برآمدات میں تیزی لائے بغیر معاشی ترقی ناممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وسائل کی درست تقسیم کے ساتھ ساتھ ٹیکس کا نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم ہمیشہ سے ہی برآمدات پر زور دیتے رہے ہیں۔ دنیا میں برآمدات کی مد میں پاکستان کا حصہ بتدریج کم ہوتا رہا ہے اور آج جبکہ پاکستان دنیا کی آبادی کا 2.5% حصہ ہے اس کی برآمدات دنیا کی آبادی کی 0.3 % ہیں جو کہ خطرناک حد تک کم ہے۔ ہم میں سے وہ سبھی جو ورلڈ بنک میں کام کرتے رہے ہیں ، کا خیال ہے کہ اگر آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو تجارت اور برآمدات کو بہت بہت زیادہ توجہ دینی ہوگی۔

کسی بھی ملک میں ترقی کا پہیہ معیشت کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور پاکستان بھی معاشی ترقی کیے بغیر ترقی یافتہ دنیا کے ہم قدم نہیں چل سکتا۔

واشنگٹن میں پاکستانی ماہرین کی جانب سے معیشت کے جائزے اور سفارشات کی روشنی میں یہ واضح کیا گیا کہ حالیہ سیلابوں اور بم دھماکوں سے ہونے والی تباہی اور ملک کے بنیادی معاشی ڈھانچے کی بہتری کے لیے تجارت اور برآمدات میں اضافہ کیے بغیر ترقی کا سوچنا ناممکن سی بات ہے۔