عالمی بینک کے ایک اعلی عہدےداراینڈریو برنز نے کہا ہے کہ پاکستان میں افراط زر بڑھنے کی وجوہات بیرونی حالات سے جڑی ہوئی ہیں ، لیکن پاکستان بین الاقوامی پالیسیوں کو اپنے حالات کے مطابق ڈھال کر غریب طبقات کو افراط زر کے اثرات سے بچانے کی کوشش کر سکتا ہے ۔ اینڈریو برنز نے یہ بات عالمی معیشت کے متوقع منظرنامے کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہی ۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ جاپان میں سونامی، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں انتشار کے باوجود ترقی یافتہ ممالک میں آئیندہ دوسالوں میں معاشی نمو مستحکم رہنے کی توقع ہے، جبکہ رپورٹ میں ترقی پذیر ممالک میں خوراک کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان مسترد نہیں کیا گیا۔
ورلڈ بینک کی ایک تازہ رپورٹ میں عالمی معاشی نمو میں اضافے کے بارے میں مثبت امکانات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ واشنگٹن میں عالمی بینک کے سینیئر نائب صدر جسٹن یی فو لین اور بینک میں گلوبل مانیٹرنگ کے نگران اینڈریو برنزنے ایک پریس بریفنگ میں اس رپورٹ کی تفصیلات بتائیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اینڈریونے کہا کہ افراط زر اور عرب دنیا میں سیاسی انتشار کے اثرات جنوبی ایشیا میں معاشی رفتار پر اثر انداز ہونگے۔
ان کا کہناتھا کہ ایک لحاظ سے جنوبی ایشیا کے حوالے سے معاشی امکانات روشن ہیں۔ وہاں معاشی شرح نمو چھ فی صد سے زیادہ رہنے کی توقع ہے۔لیکن اس کے باوجود ہمیں خدشہ ہے کہ معاشی بحران کے خاتمے کے رد عمل اور پالیسیوں کے سخت ہونے کی وجہ سے معاشی نمو کی رفتار سست ہوگی۔بھارت اور خطے کے دوسرے ممالک میں افراط زر کے دباؤ سے نمٹنے کی ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ وہاں خسارہ کم کرنے کے لئے مالی پالیسیوں کو مضبوط بنانا ہوگا۔
دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان بھی بین الاقوامی تبدیلیوں سے بچ نہیں سکا۔ حالیہ کچھ برسوں میں عالمی سطح پر خوراک اور پھر تیل کی قیمتوں میں اضافے کےباعث پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بینک کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے پاکستان کچھ زیادہ نہیں کر سکتا۔
اینڈریوکہتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران دنیا کے کچھ حصوں میں خواراک کی قیمتوں میں 40فی صد تک اضافہ دیکھا گیا جس سے غریب طبقوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عالمی بینک ایسے پروگرامز پر کام کر رہا ہے جس سے کسان اپنی پیداوار بڑھا سکیں۔
خوراک کی قیمتوں میں اضافہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ ہم بین الاقوامی سطح پر اس سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بینک نے خوراک کو اولین ترجیح دینے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔اصل کوشش یہ ہے کہ ایسی پالیسیوں پر کام کیا جائے جن سے ترقی پذیر ممالک میں خوراک کی قیمتوں کے اثرات کو کم کیا جائے جیسے خوراک کی تقسیم کو موثر بنانا اور ذخیروں کو یقینی بنانا۔اور موسمی حالات کی پیشن گوئی کے نظام کو بہتر کیا جائے تاکہ کسان اپنی پیدوار بڑھا سکیں۔
عالمی بینک کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی سے نہ صرف ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی پیداوار میں بہتری آئی ہے بلکہ اس سال کے اوائل سے اس کی وجہ سے عالمی تجارت میں اضافہ دیکھا گیا ہے جو عالمی معیشت میں مثبت رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔