توانائی کے بحران، سیلاب کی تباہ کاریوں اور امن و آمان کی خراب صورت حال کے باعث پاکستان کی معیشت سست روی کا شکار ہے اور ملک میں ملازمت کے نئے مواقع دستیاب نا ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جنھیں بروقت ملازمت کے موقعے فراہم کرکے ہی معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جا سکتا ہے۔
وزارتِ خزانہ کی شماریات ڈویژن کے سیکرٹری سہیل احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ توانائی کے بحران اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں معیشت متاثر ہونے کی وجہ سے حکومت نے معاشی شرح نمو کے مقررہ ہدف میں کمی کی ہے۔
’’توانائی اور سیلاب کے بعد کے اثرات نے معیشت کی تیز رفتار ترقی کی راہ میں روکاٹ پیدا کی۔ رواں مالی سال کے اختتام تک ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو تقریباً 3.8 سے 4 فیصد تک متوقع ہے۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ پیداواری سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کے باعث ملک میں ملازمت کے محدود مواقع دستیاب ہیں جب کہ بجلی کے بحران کی وجہ سے پیداواری اور صنعتی شعبوں میں بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔
ملک کے اقتصادی مرکز کراچی کے ایوانِ صنعت و تجارت کے صدر میاں ابرار احمد نے گفتگو میں بتایا کہ توانائی کا بحران برآمدات کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
’’امن و امان کی خراب صورت حال اور بجلی کے بحران سے پیداواری لاگت بڑھ رہی ہے، ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور بے روزگاری میں 5 سے 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ حکومت کو توانائی کی فراہمی کے لیے ایسی جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے جو صنعتوں کے لیے آئندہ 20 سال تک توانائی کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنا سکے۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق توانائی کے بحران کے باعث معاشی ترقی کی شرح میں سالانہ دو فیصد کمی ہو رہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 20 لاکھ افراد اپنی تعلیم مکمل کرکے ملازمت کے مواقع تلاش کرتے ہیں۔
ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ملازمتوں کی دستیابی کے لیے پاکستان کی معیشت کی سالانہ 7 فیصد شرح نمو سے ترقی ناگزیر ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران ملک میں بے روزگاری کی شرح 3 فیصد ہے لیکن غیر جانبدار ماہرین کے مطابق حکومتی اعداد و شمار کے برعکس پاکستان میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔