پاکستان کے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح موجودہ حکومت نے بجلی ،پیٹرولیم مصنوعات اورخوردنی تیل کی قیمتیں بڑھائى ہیں، اس سے مہنگائى کا نیا طوفان آئے گا۔
روس سے تیل کی خریداری کے معاملے پر سابق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت روسی تیل کی خریداری کے لیے پوٹن حکومت کو خط لکھ کر اس عمل کا آغاز کر چکی تھی،لیکن موجودہ حکومت نے امریکہ کی ناراضگی کے خدشے کے پیش نظر اس سلسلے کو روک دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئى کی حکومت نے چار ماہ کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنا تھا،اور اس کے لیے ان کے پاس ایک منصوبے کے تحت 467ارب روپے کا انتظام موجود تھا جسے اس مقصد کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔
ان دنوں ملکی معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے لیے مختلف حلقوں میں چارٹرآف اکانومی پر گفتگو ہو رہی ہے جس کے تحت چاہے کوئی بھی پارٹی اقتدار میں ہو وہ معیشت کے لیے چارٹر پر ہی عمل کرے گی۔شوکت ترین کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت ابہام کا شکار ہے۔لیکن اگر چارٹر آف اکانومی پر اتفاق ہو جاتا ہے تو پھر چاہے پی ٹی آئى حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، چارٹر آف اکانومی پر عمل کیا جائے گا۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بات کرتے ہوئے شوکت ترین کا کہنا تھا کہ اگر حکومت آئى ٹی سیکٹر پر30 فی صد ٹیکس لگاتی ہے تو یہ اقدام اس سیکٹر کو تباہ کرنے کے مترادف ہو گا۔
SEE ALSO: اقتصادی سروے 22-2021: فی کس آمدن میں اضافہ ہوا لیکن مہنگائی بھی بڑھی
ان کا کہنا تھا کہ ایسے طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے نئے ٹیکس لگائے بغیر قومی محاصل میں 80 کھرب روپے تک کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئى حکومت کی طرف سے نئے قرض لینے اور قرضوں کی واپسی کے حوالے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے 180 کھرب روپے کا قرض لیا جس میں ایک 142کھرب قرضوں کی ادائیگی میں استعمال کیے گیے۔
معیشت کی بہتری کے لیےاصلاحات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت رینٹ سیکنگ اکانومی کے ماڈل کوختم کرنے کے لیے کام کر رہی تھی۔ہمیں معیشت میں استحکام اور بہتری لانے کے لیے دس سال چاہیئں۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے بتایا کہ پاکستان کے پاس معیشت کی بہتری کے لیے منصوبے موجود ہیں مگر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اسٹیبلشمنٹ بھی اس حوالے سے ایک اہم سٹیک ہولڈر ہے جسے اس سلسلے میں ہم نے بریف کر دیا تھا اور مارچ کے آغاز تک وہ اس چیز کے قائل تھے کہ حکومت کا تسلسل معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔