’اربوں ڈالر امریکی امداد حقیقت کم افسانہ زیادہ‘

پاکستان کے لیے امریکی امداد قانون کے خالق سینیٹر جان کیری اور رچرڈ لوگر

امریکی انتظامیہ نے کیری-لوگر-برمن قانون کے تحت پاکستان کو آئندہ پانچ سالوں میں 7.5 ارب ڈالر سویلین امداد فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا اور پاکستان کو ہر سال 1.5 ارب ڈالر کی رقم ملنا تھی۔ لیکن حفیظ شیخ نے بتایا کہ رواں سال اب تک پاکستان کو محض 30 کروڑ ڈالر ہی فراہم کیے گئے ہیں۔

لاہور میں دوہرے قتل کے الزام میں گرفتار کیے گئے سی آئی اے سے نجی حیثیت میں منسلک اہلکار ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ حل ہونے کے بعد امریکہ اور پاکستان نے دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اعلیٰ سطحی رابطوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔

اب تک ہونے والے اجلاسوں میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی حکام نے بار بار اپنے اس قریبی اتحادی کو درپیش سنگین مسائل، جن میں شدت پسندی کے بعد معیشت اور توانائی کے بحران سر فہرست ہیں، سے نمٹنے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے عہدے داروں کا ماننا ہے کہ حالات کو بہتر کرنے اور اعتماد کی بحالی میں وقت لگے گا۔

بظاہر اس عدم اعتماد کا اظہار واشنگٹن کا دورہ کرنے والے پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے پیر کو ’’ووڈرو وِلسن سینٹر‘‘ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جہاں اُن کا کہنا تھا کہ امریکی عوام میں عمومی طور پر پایا جانے والا یہ تاثر درست نہیں کہ اُن کا ملک پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد فراہم کر رہا ہے۔ ’’یہ حقیقت کم اور افسانہ زیادہ ہے۔‘‘

’اربوں ڈالر امریکی امداد حقیقت کم افسانہ زیادہ‘

اُنھوں نے کہا کہ امریکی انتظامیہ نے کیری-لوگر-برمن قانون کے تحت پاکستان کو آئندہ پانچ سالوں میں 7.5 ارب ڈالر سویلین امداد فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا اور پاکستان کو ہر سال 1.5 ارب ڈالر کی رقم ملنا تھی۔ لیکن حفیظ شیخ کے بقول رواں سال اب تک پاکستان کو بامشکل 30 کروڑ ڈالر ہی فراہم کیے گئے ہیں۔

فروری 2008ء میں عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت روز اول سے پاکستان کو اعانت فراہم کرنے والوں ملکوں پر زور دیتی آئی ہے کہ وہ مالی امداد فراہم کرنے کے بجائے اپنی تجارتی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی کی اجازت دیں۔

تاہم یہ مطالبہ ایسے وقت کیا جا رہا ہے جب ملک میں پیداواری شعبہ خصوصاً ٹیکسٹائل صنعت شدید مشکلات کا شکار ہے اور صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ طویل دورانیہ کی بجلی کی بندش کے باعث برآمدی اہداف پورے نہیں کر پا رہے ہیں۔

2007ء کے وسط سے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی اور ملک میں توانائی کے شدید بحران کے بعد سے پاکستان کی معیشت ایک کٹھن دور سے گزر رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت نے اس کو سہارا دینے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے کڑی شرائط پر 11 ارب ڈالر سے زائد قرض کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس رقم میں سے سات ارب ڈالر سے زائد پاکستان کو دیے جا چکے ہیں لیکن اقتصادی اصلاحات کے حوالے سے طے شدہ بعض اہداف حاصل نا ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف قرضے کی چھٹی قسط جاری کرنے سے گریزاں ہے۔

مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق واشنگٹن میں وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور آئی ایم ایف کے عہدے داروں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے دوران بظاہر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

باقی ماندہ رقم کی وصولی میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک میں اصلاحاتی جنرل سیلزٹیکس کا نفاذ ہے، جس کی مخالفت حزب اختلاف سمیت خود حکمران پیپلز پارٹی کی حلیف جماعتیں بھی کر رہی ہیں۔

ناقدین کی رائے میں پیپلز پارٹی اپنی سیاسی کمزوریوں کی وجہ سے ملک میں معاشی استحکام کے لیے وہ ناگریز اقدامات کرنے سے بظاہر قاصر نظر آتی ہے جن کا امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک اور ادارے بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم تقریباً 58 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جب کہ مقامی سطح پر حاصل کیے گئے قرضوں کی مالیت 70 ارب ڈالر ہے۔