امریکی سینیٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی کے سربراہ،سینیٹر جان کیری اِس وقت پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ موجودہ تناظر میں اُن کا یہ دورہ بیحد اہم خیال کیا جارہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے بتایا کہ اِس وقت پاکستان اور امریکہ کے باہمی مفادات آپس میں بہت زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، ’ اگر تعلقات میں کوئی تعطل پیدا ہوتا ہے ، اور دونوں ممالک کے ذہنوں میں جِن سوالات نے جنم لیا ہے اگر دونوں ملکوں کی قیادتیں اُن کا حل تلاش نہیں کرتیں توباہمی تعاون کے ذریعے اب تک حاصل کی گئی کامیابیاں ضائع جاسکتی ہے۔
جو کچھ ابھی تک امریکہ اور پاکستان قربانیاں دے چکے ہیں القاعدہ اور طالبان کی تحریک کے خلاف اور افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے اور پاکستان کے علاقوں میں امن قائم کرنے کے لیے وہ رائیگان جائیں گی۔‘
ڈاکٹر رئیس نے کہا کہ جان کیری پاکستان کے دوست سمجھے جاتے ہیں۔ اُن کے الفاظ میں،’ کیری مدبر ہیں، اعلیٰ درجے کے سیاستداں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ کس انداز سے بات کرنی ہے۔‘
تجزیہ کار نے کہا کہ،’اگرچہ ہم ایک مشکل نہج پر پہنچ چکے ہیں لیکن یہ نہیں کہ سکتے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ دوبارہ اُن کی تعمیر ہو اور جو خدشات پاکستان اور امریکہ کی طرف سے ہیں، تحفظات دونوں جانب ہیں، توقع ہے کہ اِن کو حل کر لیا جائے گا۔‘
پارلیمان کے ارکان سے رابطے سے متعلق ایک سوال کے جواب پر ڈاکٹر رئیس نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ جو مختلف سیاسی جماعتیں اِس وقت پارلیمان کے اندر موجود ہیں اُن کی قیادت سے امریکی قیادت رابطے میں رہے اور اُنھیں اعتماد میں لے ۔
اُنھوں نے کہا کہ جس طرح سے پاکستان میں امریکی سفیر حکومتی عہدے داروں کے علاوہ حزب مخالف کے راہنماؤں سے بھی ملاقات کرتے ہیں، اُسی طرح سےمتوقع طور پر سینیٹر جان کیری پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کے ارکان سے بات کریں گے، خصوصاً اُن سے جو، اُن کے بقول، ’ اثر رکھتے ہیں‘۔
ڈاکٹر معید یوسف، واشنگٹن میں یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں۔ جان کیری کے دورہٴ پاکستان پر پوچھے گئے سوال پر اُنھوں نے کہا کہ بات چیت کے بغیر کوئی معاملہ آگے نہیں بڑھے گا۔
اُن کے الفاظ میں جب دو ممالک کے تعلقات میں تناؤ آتا ہے تو سوائے بات چیت کے کسی اور طریقے سے اِن میں بہتری نہیں لائی جاسکتی۔
ڈاکٹر معید کے خیال میں محض ایک دورے سے تعلقات میں بہتری آنے کا امکان بہت زیادہ نہیں ہے، کیونکہ جو زمینی حقائق ہیں، جیسا کے افغانستان کا معاملہ اور اعتماد کی کمی، وہ تو موجود ہے، جن معاملوں میں پیش رفت میں، اُن کے بقول، ’ ایک وقت لگے گا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر مسائل کی اچھی طرح وضاحت کی جائے کہ پاکستانی عوام کو اِن معاملات کے سلجھانے کی کیوں ضرورت ہے تو ، اُن کے بقول، ’ایسی کوشش کا مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے‘۔
تفصیل کےلیے وڈیو رپورٹ سنیئے: