سماجی تنظیم ایدھی فاوٴنڈیشن کے مردہ خانوں میں ہر روزدرجنوں ایسے نومولود بچوں کو غسل دیا جاتا ہے جو پاکستان کے بڑے شہروں میں کوڑے دانوں یا دیگر مقامات سے مردہ حالت میں ملتے ہیں۔ ان میں بیشتر لڑکیاں ہوتی ہیں اور اکثر بچوں کی عمر زیادہ سے زیادہ پانچ دن ہوتی ہے۔
اس فلاحی تنظیم کے سربراہ عبدالستار ایدھی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اگرچہ معصوم بچوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے ان واقعات کی حوصلہ شکنی کے لیے ایدھی فاوٴنڈیشن نے اپنے ہر مرکز کے باہر جھولا رکھا ہوا ہے لیکن ادارے کے محتاط اندازوں کے مطابق صرف گذشتہ سال پاکستان میں لگ بھگ 11 سو نومولود بچوں کو قتل کیا گیا یا پھر مرنے کے لیے سرِ راہ چھوڑدیا گیا جبکہ اس عرصے میں خاموشی سے دفن کیے جانے والے بچوں کی تعداد الگ ہے۔
ناقدین کے خیال میں طفل کشی یا نومولود بچو ں کو قتل کرنے کے رجحان میں تیزی کی وجوہات مذہبی اقدار، خاندانی روایات اور معاشرتی خوف ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان میں بغیر شادی کے بچوں کی پیدائش نا صرف ایک قابل مذمت اور غیر قانونی فعل ہے بلکہ ناجائز تعلقات کی سزا موت تصور کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ غربت میں اضافہ بھی ایسے واقعات کے محرکات ہوسکتے ہیں۔
ایدھی فاوٴنڈیشن کے عہدیدار انور کاظمی بتاتے ہیں کہ صرف 15 فیصد کے قریب بچے انھیں اپنے جھولوں پر ملتے ہیں۔ ان کے بقول صرف کراچی اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں لوگ اپنے بچے زندہ ان کے مراکز پر چھوڑ جاتے ہیں جبکہ باقی معاشرتی خوف کی وجہ سے یہ ہمت نہیں کر پاتے۔ بالخصوص اندرونِ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں لوگ ایسے بچوں کو خود ہی دفن کردیتے ہیں تاکہ کسی کو کان وکان خبر ہی نہ ہو۔
پاکستان میں غربت اور تنگ نظری کے سبب عمومی طور پر لڑکوں کو گھر کا کفیل اور لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اس لیے مار دیے جانے والے بچوں میں 95 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ان بچوں کو ناجائز کہا جاتا ہے اور یہ ساری عمر لوگوں کی حقارت کا نشانہ ہی بنتے ہیں۔ ادارے کے رضاکاروں کے مطابق کہ انھیں کوڑے دانوں سے بچے جلے ہوئے یا پھندا لگے بھی ملتے ہیں۔ اور ایک واقعہ میں تو مسجد کے پیش امام کے فتوے کے بعد دو دن کے بچے کو سنگسار بھی کیا گیا۔
پاکستان کی سب سے بڑی سماجی تنظیم کے سربراہ عبدالستار ایدھی کہتے ہیں”ہماری تنظیم نے پاکستان میں سب سے پہلا کام ایمبولینس سروس کا شروع کیا۔ اس دوران ہمیں کوڑے دانوں سے کئی بچے زندہ اور مردہ حالت میں ملتے تھے۔ میں نے اور میری اہلیہ بلقیس ایدھی نے یہ طے کیا کہ ہم اپنے تمام مراکز پر جھولے رکھیں اور پبلک کو آگاہی دیں کہ ان بچوں کو مت مارو ، ہمیں دے دو۔“
ایدھی کی جھولا سروس 56 سالوں سے جاری ہے اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی اس کی نگرانی کرتی ہیں۔ اگرچہ انھیں اس حوالے سے مذہبی طبقات کی مخالفت کا سامنا رہتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہر بچہ معصوم ہے۔ ” ایدھی فاوٴنڈیشن نے اپنے مراکز کے باہر یہ تحریر کر رکھا ہے کہ پولیس ہمارے کام میں مداخلت نہیں کرتی نہ ہم سے ان بچوں کا ریکارڈ مانگتی ہے لیکن معلوم نہیں کہ لوگوں کے دلوں سے خوف کیوں نہیں جاتا۔“
ایدھی کے مطابق ملک بھر میں ان کے 365 مراکز میں ہر سال 235 کے قریب بچوں کو جھولوں میں چھوڑدیا جاتا ہے جنھیں اپنانے کے لیے ہزاروں بے اولاد جوڑوں کی درخواستیں ہمارے پاس پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ ایدھی کے بقول اب تک ان کے ادارے سے 20 ہزار بچوں کو بے اولاد جوڑوں نے گود لیا ہے اور وہ آج ایک بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستان میں اسقاطِ حمل ممنوع ہے سوائے اس کے کہ حمل کے دوران ماں کی زندگی کو خطرہ ہو۔ ماہرین کے نزدیک نومولود بچوں کے قتل کو روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے وسیع پیمانے پر آگاہی لازمی ہے۔
پاکستان کے قوانین کے تحت کسی بچے کو مرنے کے لیے چھوڑ دینے والے کو سات سال کی جیل ہوسکتی ہے جبکہ خاموشی سے بچے کو دفن کردینے پر دو سال کی سزا ہے اورکسی بھی قتل کی سزا موت ہے۔
عبدالستار ایدھی کہتے ہیں کہ ہماری لوگوں سے اپیل ہے کہ ان نومولود بچوں کو مت ماریں۔” خاموشی سے انھیں ہمارے جھولوں میں ڈال دو کیوں کہ بہت سے لوگ پریشان حال ہیں جنھیں اللہ نے اولاد نہیں دی اس لیے انھیں لینے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کی پرورش بھی اچھی ہوگی۔ “