یہ طلبا جن امریکی گھرانوں کے ساتھ ٹھہرتے ہیں انہیں خوب جانچ پڑتال کے بعد منتخب کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ یقین کیا جاتا ہےکہ وہ اپنے گھر میں کسی طالب علم کی میزبانی کسی غلط مقصد سے نہیں کرنا چاہتے، طلبا ان کے گھر محفوظ رہیں گے اور ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ تو نہیں
امریکی محکمہ خارجہ کے تحت چلنے والے کیری لوگر سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام کے تحت اس سال پاکستان سے آنے والے طالب علموں کی تعداد 107 ہے۔
یہ طالب علم، جن کی عمر 15 سے 17 سال کے درمیان ہے، امریکہ کی مختلف ریاستوں میں اپنے میزبان امریکی والدین کے ساتھ ایک سال تک قیام کریں گے، اور اپنے میزبان خاندان اور تعلیمی ادارے کی مدد سے امریکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اس سال اس پروگرام کے تحت دنیا کے 40 ملکوں سے 807 طالب علم امریکہ آئے ہیں۔
ہائی سکول یا 15 سال سے زائد عمر کے نوجوانوں کے ایکسچینج پروگرامز امریکہ اور یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع کئے گئے تھے، تاکہ مختلف ملکوں اور ثقافتوں کے درمیان بہتر سمجھ بوجھ پیدا کی جا سکے۔ جبکہ، ییس ۔۔یعنی یوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی پروگرام، امریکی محکمہ خارجہ کے کلچرل اینڈ ایجوکیشنل بیورو کے تحت 2003ء میں شروع کیا گیا۔ اس کے ذریعے وہ نوجوان امریکہ آکر یہاں کے تعلیمی اداروں اور امریکی طرز زندگی کا قریبی مشاہدہ کرتے ہیں جن کی عمر 15سال سے زائد ہے۔ وہ امریکہ آکر ایسے امریکی خاندانوں کے ساتھ ایک سال تک قیام کرتے ہیں جن کے اپنے بھی اسی عمر کے بچے ہوں اور جو اپنے گھر میں کسی مختلف ملک کے نوجوان ایکسچینج سٹوڈنٹ کی میزبانی کرنے میں خوشی محسوس کریں ۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے لئے ییس کے پروگرام مینیجر، کیون بیکر کا کہنا ہے کہ یہ طلبا جن امریکی گھرانوں کے ساتھ ٹھہرتے ہیں انہیں خوب جانچ پڑتال کے بعد منتخب کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ یقین کیا جاتا ہےکہ وہ اپنے گھر میں کسی طالب علم کی میزبانی کسی غلط مقصد سے نہیں کرنا چاہتے ۔ طلبا ان کے گھر محفوظ رہیں گے ۔ وہ واقعی کسی غیر ملکی طالب علم کی میزبانی کے لئے پر جوش ہیں۔ وہ طالب علم کو نئے ماحول اور اس کے امریکی سکول اور ٹیچرز کے ساتھ گھل ملنے کے لئے پوری رہنمائی اور مدد فراہم کریں گے۔ ایسے بچوں کو انہی امریکی سکولوں میں بھیجا جاتا ہےجو غیر ملک سے آنے والے بچوں کو بھرپور تعلیمی اور غیر نصابی مواقع مہیا کرنے کو تیار ہوں۔
کیون بیکر کہتے ہیں کہ غیر ملکی طلبا کی میزبانی کرنے والے خاندان کے سربراہ کو ایک درخواست فارم بھر کے دینا ہوتا ہے جس میں انہیں اپنے خاندان کے افراد کی تعداد اور یہ بتانا ہوتا ہے کہ جس ایکسچینج سٹوڈنٹ کی وہ میزبانی کرنا چاہتے ہیں وہ کس قسم کے ماحول میں رہے گا؟ اس کے رہنے کا کیا انتظام ہوگا؟ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ان امریکی والدین کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ تو موجود نہیں۔ ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ اپنے بچوں کو کسی امریکی خاندان کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے والے حقیقی والدین کو بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ میزبانی کے خواہشمند والدین کو اپنے محلے میں رہنے والے ایک یا دو ہمسائیوں کی تحریری سفارش بھی مہیا کرنی ہوتی ہے، جو گواہی دیں کہ کوئی غیر ملکی سٹوڈنٹ ان کے گھر میں قیام کرے تو محفوظ رہے گا۔
اس سال ییس پروگرام پر امریکہ آنے والے 107پاکستانی طلبا میں 60فی صد لڑکیاں ہیں۔ فرح کمال پاکستان میں اُس شعبے سے وابستہ ہیں جو ییس پروگرام میں حصہ لینے والے طلبا کا انتخاب کرتا ہے۔
اُن کا تعلق ایک غیر سرکاری ادارے ’آئی ارن پاکستان‘ سے ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کے مختلف حصوں میں مہنگے سکولوں کے بجائے اوسط درجے کے سکولوں سے رابطے کرکے پروگرام میں حصہ لینے کی دعوت دیتا ہے ۔۔ ہر سال مئی کے مہینے میں ییس پروگرام کے بارے میں اخبار ات میں اشتہار شائع کئے جاتے ہیں۔
’آئی ارن پاکستان‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فرح کمال کہتی ہیں کہ سب سے پہلے اوسط درجے کے سکولوں میں معلومات بھیجی جاتی ہیں۔ اس پروگرام میں داخلے کا ابتدائی درخواست فارم بھی ہوتا ہے۔ ییس کی ویب سائٹ پر بھی ابتدائی درخواست فارم موجود ہوتا ہے۔
مئی کے مہینے میں اخبا ر میں پروگرام کے لئے اشتہار دیا جا تا ہے۔ بچو ں کو ویب کا ایڈریس دیا جا تا ہے، جہاں جاکر وہ درخواست فارم ڈاون لوڈ کر سکتے ہیں۔ یہ موقعہ ہر پاکستانی بچے کے لئے ہے۔ جس سال درخواست دی جا رہی ہو اس سال بچے کی عمر 15 سا ل سے 17 سال کے درمیان ہونی چاہیے۔ پندرہ سال سے کم اور سترہ سال سے زیادہ عمر کے بچے درخواست نہیں دے سکتے۔ یعنی، اگر اپریل یا مئی میں درخواست دی جارہی ہے تو سنہ2014کے یسس پروگرام میں داخلے کے لئے وہ درخواست دیں گے، اور 2014ء کی پہلی اگست کو انکی عمر 15 سے 17 سال ہو نی چاہئیے۔ درخواست دینے سے پہلے دو سالوں کے دوران بچوں کا تعلیمی ریکارڈ بہترین ہونا اورتمام مضامین میں 70 فیصد یا اس سے زیادہ نمبر لینا ضرو ری ہے۔ جبکہ درخواست دینے والے طلبا نے امریکہ میں کبھی امیگریشن کے لئے درخواست نہ دی ہو۔
جو بچے ان تمام شرائط پر پورے اترتے ہیں وہ یس پروگرام میں داخلے کی ابتدائی درخواست بھر کر بھیج سکتے ہیں اور اگر وہ منتخب ہوجائیں تو ان کی انگریزی کی استعداد کو جانچنے کے لئے سیکنڈری لیول انگلش پروفیشنسی ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں منتخب ہونے کے بعد طلبا کو انٹرویو کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ کیا بچے میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ایک انجان ملک میں غیرلوگو ں کے ساتھ رہ سکے اور وہ کتنا زیادہ اپنے ملک اور مذ ہب کے با رے میں جانتے ہیں، کیونکہ ان بچو ں کو بیرون ملک جا کراپنے ملک کی سفارت کا کام انجام دینا ہوتا ہے۔۔
فرح کمال کہتی ہیں کہ پروگرام میں شامل ہونے کے لئے ان بچوں کی خاص طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو کسی جسمانی معذوری یا کمی کا شکار ہوں۔ ہر سال جو بچے پاکستان سے منتخب ہوتے ہیں ان میں ایک یا دو بچے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو کسی جسمانی معذوری کا شکار ہوں۔ یس پروگرام میں شرکت کے لئے بچوں کی امریکہ روانگی سے چار پانچ ماہ پہلے آئی ارن پاکستان کے تحت کراچی ، پشاور اور اسلام آباد میں ان کی ٹریننگ ورکشاپس بھی ہوتی ہیں جن میں طلباء کی انٹر پرسنل سکلزیعنی دوسروں سے گھلنے ملنے کی صلاحیت کو بہتر کرنے پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ ان ورکشاپس میں بچوں کے ساتھ ان کے والدین بھی شرکت کرتے ہیں۔
یہ اورینٹیشن کا مرحلہ چار پانچ مہینے کا ہوتا ہے۔ اپریل مئی میں جب تقریبا تما م بچے اپنے امتحانو ں سے فارغ ہو جاتے ہیں، تو یہ اچھا مو قع ہوتا ہے کہ ہم بچوں کو ایسی سرگرمیو ں میں شامل کریں جو انہیں امریکہ میں ایک سال گزارنے کے لئے تیا ر کر تی ہیں۔
فرح کمال کہتی ہیں کہ پروگرام میں شرکت کے لئے سب سے زیادہ درخواستیں صوبہ سندھ اور خیبر پختون خواہ سے موصول ہوتی ہیں۔ اس سال ییس پروگرام پر امریکہ آنے والے 107 پاکستانی طالب علموں میں سے 60 فیصد لڑکیاں ہیں۔
یہ طالب علم، جن کی عمر 15 سے 17 سال کے درمیان ہے، امریکہ کی مختلف ریاستوں میں اپنے میزبان امریکی والدین کے ساتھ ایک سال تک قیام کریں گے، اور اپنے میزبان خاندان اور تعلیمی ادارے کی مدد سے امریکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اس سال اس پروگرام کے تحت دنیا کے 40 ملکوں سے 807 طالب علم امریکہ آئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہائی سکول یا 15 سال سے زائد عمر کے نوجوانوں کے ایکسچینج پروگرامز امریکہ اور یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع کئے گئے تھے، تاکہ مختلف ملکوں اور ثقافتوں کے درمیان بہتر سمجھ بوجھ پیدا کی جا سکے۔ جبکہ، ییس ۔۔یعنی یوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی پروگرام، امریکی محکمہ خارجہ کے کلچرل اینڈ ایجوکیشنل بیورو کے تحت 2003ء میں شروع کیا گیا۔ اس کے ذریعے وہ نوجوان امریکہ آکر یہاں کے تعلیمی اداروں اور امریکی طرز زندگی کا قریبی مشاہدہ کرتے ہیں جن کی عمر 15سال سے زائد ہے۔ وہ امریکہ آکر ایسے امریکی خاندانوں کے ساتھ ایک سال تک قیام کرتے ہیں جن کے اپنے بھی اسی عمر کے بچے ہوں اور جو اپنے گھر میں کسی مختلف ملک کے نوجوان ایکسچینج سٹوڈنٹ کی میزبانی کرنے میں خوشی محسوس کریں ۔
کیون بیکر کہتے ہیں کہ غیر ملکی طلبا کی میزبانی کرنے والے خاندان کے سربراہ کو ایک درخواست فارم بھر کے دینا ہوتا ہے جس میں انہیں اپنے خاندان کے افراد کی تعداد اور یہ بتانا ہوتا ہے کہ جس ایکسچینج سٹوڈنٹ کی وہ میزبانی کرنا چاہتے ہیں وہ کس قسم کے ماحول میں رہے گا؟ اس کے رہنے کا کیا انتظام ہوگا؟ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ان امریکی والدین کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ تو موجود نہیں۔ ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ اپنے بچوں کو کسی امریکی خاندان کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے والے حقیقی والدین کو بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ میزبانی کے خواہشمند والدین کو اپنے محلے میں رہنے والے ایک یا دو ہمسائیوں کی تحریری سفارش بھی مہیا کرنی ہوتی ہے، جو گواہی دیں کہ کوئی غیر ملکی سٹوڈنٹ ان کے گھر میں قیام کرے تو محفوظ رہے گا۔
اس سال ییس پروگرام پر امریکہ آنے والے 107پاکستانی طلبا میں 60فی صد لڑکیاں ہیں۔ فرح کمال پاکستان میں اُس شعبے سے وابستہ ہیں جو ییس پروگرام میں حصہ لینے والے طلبا کا انتخاب کرتا ہے۔
اُن کا تعلق ایک غیر سرکاری ادارے ’آئی ارن پاکستان‘ سے ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کے مختلف حصوں میں مہنگے سکولوں کے بجائے اوسط درجے کے سکولوں سے رابطے کرکے پروگرام میں حصہ لینے کی دعوت دیتا ہے ۔۔ ہر سال مئی کے مہینے میں ییس پروگرام کے بارے میں اخبار ات میں اشتہار شائع کئے جاتے ہیں۔
’آئی ارن پاکستان‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فرح کمال کہتی ہیں کہ سب سے پہلے اوسط درجے کے سکولوں میں معلومات بھیجی جاتی ہیں۔ اس پروگرام میں داخلے کا ابتدائی درخواست فارم بھی ہوتا ہے۔ ییس کی ویب سائٹ پر بھی ابتدائی درخواست فارم موجود ہوتا ہے۔
مئی کے مہینے میں اخبا ر میں پروگرام کے لئے اشتہار دیا جا تا ہے۔ بچو ں کو ویب کا ایڈریس دیا جا تا ہے، جہاں جاکر وہ درخواست فارم ڈاون لوڈ کر سکتے ہیں۔ یہ موقعہ ہر پاکستانی بچے کے لئے ہے۔ جس سال درخواست دی جا رہی ہو اس سال بچے کی عمر 15 سا ل سے 17 سال کے درمیان ہونی چاہیے۔ پندرہ سال سے کم اور سترہ سال سے زیادہ عمر کے بچے درخواست نہیں دے سکتے۔ یعنی، اگر اپریل یا مئی میں درخواست دی جارہی ہے تو سنہ2014کے یسس پروگرام میں داخلے کے لئے وہ درخواست دیں گے، اور 2014ء کی پہلی اگست کو انکی عمر 15 سے 17 سال ہو نی چاہئیے۔ درخواست دینے سے پہلے دو سالوں کے دوران بچوں کا تعلیمی ریکارڈ بہترین ہونا اورتمام مضامین میں 70 فیصد یا اس سے زیادہ نمبر لینا ضرو ری ہے۔ جبکہ درخواست دینے والے طلبا نے امریکہ میں کبھی امیگریشن کے لئے درخواست نہ دی ہو۔
جو بچے ان تمام شرائط پر پورے اترتے ہیں وہ یس پروگرام میں داخلے کی ابتدائی درخواست بھر کر بھیج سکتے ہیں اور اگر وہ منتخب ہوجائیں تو ان کی انگریزی کی استعداد کو جانچنے کے لئے سیکنڈری لیول انگلش پروفیشنسی ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں منتخب ہونے کے بعد طلبا کو انٹرویو کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ کیا بچے میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ایک انجان ملک میں غیرلوگو ں کے ساتھ رہ سکے اور وہ کتنا زیادہ اپنے ملک اور مذ ہب کے با رے میں جانتے ہیں، کیونکہ ان بچو ں کو بیرون ملک جا کراپنے ملک کی سفارت کا کام انجام دینا ہوتا ہے۔۔
فرح کمال کہتی ہیں کہ پروگرام میں شامل ہونے کے لئے ان بچوں کی خاص طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو کسی جسمانی معذوری یا کمی کا شکار ہوں۔ ہر سال جو بچے پاکستان سے منتخب ہوتے ہیں ان میں ایک یا دو بچے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو کسی جسمانی معذوری کا شکار ہوں۔ یس پروگرام میں شرکت کے لئے بچوں کی امریکہ روانگی سے چار پانچ ماہ پہلے آئی ارن پاکستان کے تحت کراچی ، پشاور اور اسلام آباد میں ان کی ٹریننگ ورکشاپس بھی ہوتی ہیں جن میں طلباء کی انٹر پرسنل سکلزیعنی دوسروں سے گھلنے ملنے کی صلاحیت کو بہتر کرنے پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ ان ورکشاپس میں بچوں کے ساتھ ان کے والدین بھی شرکت کرتے ہیں۔
یہ اورینٹیشن کا مرحلہ چار پانچ مہینے کا ہوتا ہے۔ اپریل مئی میں جب تقریبا تما م بچے اپنے امتحانو ں سے فارغ ہو جاتے ہیں، تو یہ اچھا مو قع ہوتا ہے کہ ہم بچوں کو ایسی سرگرمیو ں میں شامل کریں جو انہیں امریکہ میں ایک سال گزارنے کے لئے تیا ر کر تی ہیں۔
فرح کمال کہتی ہیں کہ پروگرام میں شرکت کے لئے سب سے زیادہ درخواستیں صوبہ سندھ اور خیبر پختون خواہ سے موصول ہوتی ہیں۔ اس سال ییس پروگرام پر امریکہ آنے والے 107 پاکستانی طالب علموں میں سے 60 فیصد لڑکیاں ہیں۔