سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2 کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں اور اقوام متحدہ کے میلینیم گولز کے تحت 2015ء تک ملک کی شرح خواندگی 56 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہونی چاہیے۔
اسلام آباد —
پاکستانی حکومت کی جانب سے علم کے فروغ کے لیے قانون سازی اور اعلان کردہ اقدامات کے برعکس صوبائی حکومتوں نے تا حال تعلیم کو بنیادی حق قرار دینے سے متعلق بل اپنی اسمبلیوں میں پیش نہیں کیا ہے۔
یہ انکشاف صوبائی تعلیمی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت یونیسکو کے زیر اہتمام بدھ کو اسلام آباد میں ایک تقریب میں کیا جس میں چاروں صوبوں، شمالی اور قبائلی علاقوں میں تعلیم کے حوالے سے وہاں کی متعلقہ حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ تعلیم کو بنیادی حق قرار دینے کے مجوزہ قانون سے صوبائی حکومتوں پر یہ لازم ہوگا کہ وہ 16 سال سے کم عمر بچوں کو مفت تعلیم مہیا کریں۔
صوبائی حکومتوں کے نمائندوں نے شرکاء کو بتایا کہ مجوزہ مسودوں پر کام جاری ہے۔
پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2 کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں اور اقوام متحدہ کے میلینیم گولز کے تحت 2015ء تک ملک کی شرح خواندگی 56 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہونی چاہیئے۔
تاہم اقوام متحدہ کے حکام اور ماہرین کا ماننا ہے کہ جس ’’سست روی‘‘ سے صوبائی حکومتیں اور سرکاری ادارے تعلیم کے فروغ کے لیے اقدامات کررہے ہیں یہ ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
بلوچستان کی وزیر تعلیم رقیہ ہاشمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ بدامنی نے ان کے صوبے میں گزشتہ ایک دہائی میں تعلیم کے شعبے کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے اور بیشتر اسکول یا تو بند ہوچکے ہیں یا اگر کھلے بھی ہیں تو وہاں معیار تعلیم بہت برا ہے۔
’’غیر ملکی ادارے اصل حقائق سے آگاہ نہیں۔ ان کی سرگرمیاں صرف اسلام آباد تک محدود ہیں۔ ہم سیاستدانوں کی بجائے وہ وہاں (بلوچستان) کے قبائلی سرداروں سے ملیں اور انہیں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے قائل کریں۔‘‘
رقیہ ہاشمی کے مطابق شدت پسندوں کے ہاتھوں اپنی جانیں بچا کرغیر بلوچ اساتذہ دوسرے صوبوں یا پختون علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔
بلوچستان میں گزشتہ چند دہائیوں سے بلوچ قوم پرست صوبائی خود مختاری اور قدرتی وسائل پر زیادہ اختیارات کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ مگر چند سالوں سے صوبے میں غیر بلوچ آبادی کو پرتشدد حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکام کے بقول ان حملوں میں بلوچ عسکریت پسند ملوث ہیں۔
رکن قومی اسمبلی سبین رضوی کہتی ہیں کہ اداروں میں رابطے میں کمی اور نامناسب وسائل کی فراہمی ملک میں تعلیم کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔
’’ایک دوسرے پر الزامات سے کچھ نہ ہوگا۔ یہ مسئلہ کسی ایک صوبے یا وفاق یا حکومت یا حزب اختلاف کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے اور سب کو اس کے حل کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔‘‘
یونیسکو کے ایک اعلیٰ عہدیدار ارشد سعید خان کہتے ہیں کہ بظاہر تعلیم اب بھی صوبائی قانون سازوں کی ترجیح میں شامل نہیں ہے۔
’’قانون ساز ان منصوبوں پر توجہ دے رہے ہیں جن سے ان کی فوری طور پر کارکردگی عوام کو نظر آئے کیونکہ الیکشن آرہے ہیں۔ تعلیم ایک طویل المیعاد منصوبہ ہے اس پر کوئی توجہ نہیں۔‘‘
لیکن وفاقی حکومت نے حال ہی میں تعلیم کے فروغ کے لیے 16 سال سے کم عمر بچوں کی تعلیم مفت و لازم کرنے کا قانون پارلیمان سے منظور کروایا اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کو اسکول بھیجنے پر غریب خاندانوں کی مالی معاونت کی ایک اسکیم بھی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ انکشاف صوبائی تعلیمی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت یونیسکو کے زیر اہتمام بدھ کو اسلام آباد میں ایک تقریب میں کیا جس میں چاروں صوبوں، شمالی اور قبائلی علاقوں میں تعلیم کے حوالے سے وہاں کی متعلقہ حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ تعلیم کو بنیادی حق قرار دینے کے مجوزہ قانون سے صوبائی حکومتوں پر یہ لازم ہوگا کہ وہ 16 سال سے کم عمر بچوں کو مفت تعلیم مہیا کریں۔
صوبائی حکومتوں کے نمائندوں نے شرکاء کو بتایا کہ مجوزہ مسودوں پر کام جاری ہے۔
پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2 کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں اور اقوام متحدہ کے میلینیم گولز کے تحت 2015ء تک ملک کی شرح خواندگی 56 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہونی چاہیئے۔
تاہم اقوام متحدہ کے حکام اور ماہرین کا ماننا ہے کہ جس ’’سست روی‘‘ سے صوبائی حکومتیں اور سرکاری ادارے تعلیم کے فروغ کے لیے اقدامات کررہے ہیں یہ ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
’’غیر ملکی ادارے اصل حقائق سے آگاہ نہیں۔ ان کی سرگرمیاں صرف اسلام آباد تک محدود ہیں۔ ہم سیاستدانوں کی بجائے وہ وہاں (بلوچستان) کے قبائلی سرداروں سے ملیں اور انہیں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے قائل کریں۔‘‘
رقیہ ہاشمی کے مطابق شدت پسندوں کے ہاتھوں اپنی جانیں بچا کرغیر بلوچ اساتذہ دوسرے صوبوں یا پختون علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔
بلوچستان میں گزشتہ چند دہائیوں سے بلوچ قوم پرست صوبائی خود مختاری اور قدرتی وسائل پر زیادہ اختیارات کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ مگر چند سالوں سے صوبے میں غیر بلوچ آبادی کو پرتشدد حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکام کے بقول ان حملوں میں بلوچ عسکریت پسند ملوث ہیں۔
رکن قومی اسمبلی سبین رضوی کہتی ہیں کہ اداروں میں رابطے میں کمی اور نامناسب وسائل کی فراہمی ملک میں تعلیم کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔
’’ایک دوسرے پر الزامات سے کچھ نہ ہوگا۔ یہ مسئلہ کسی ایک صوبے یا وفاق یا حکومت یا حزب اختلاف کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے اور سب کو اس کے حل کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔‘‘
یونیسکو کے ایک اعلیٰ عہدیدار ارشد سعید خان کہتے ہیں کہ بظاہر تعلیم اب بھی صوبائی قانون سازوں کی ترجیح میں شامل نہیں ہے۔
’’قانون ساز ان منصوبوں پر توجہ دے رہے ہیں جن سے ان کی فوری طور پر کارکردگی عوام کو نظر آئے کیونکہ الیکشن آرہے ہیں۔ تعلیم ایک طویل المیعاد منصوبہ ہے اس پر کوئی توجہ نہیں۔‘‘
لیکن وفاقی حکومت نے حال ہی میں تعلیم کے فروغ کے لیے 16 سال سے کم عمر بچوں کی تعلیم مفت و لازم کرنے کا قانون پارلیمان سے منظور کروایا اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کو اسکول بھیجنے پر غریب خاندانوں کی مالی معاونت کی ایک اسکیم بھی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔