پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ طالبان اور ان کے اتحادیوں کی کھلے عام مخالفت کرتی رہی ہیں۔
اسلام آباد —
صوبہ خیبر پختون خواہ اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں سلامتی کے خدشات چند بڑی سیاسی جماعتوں کے مطابق انہیں وہاں انتخابی مہم آزادانہ طریقے سے چلانے سے روک رہے ہیں۔
ان جماعتوں میں سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور اس کی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق کالعدم جنگجو تنظیم تحریک طالبان پاکستان ان جماعتوں کو انتخابات میں نشانہ بنانے کی دھمکی دے چکی ہے۔
انتخابات میں اب صرف ایک مہینہ باقی ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں نے بڑے اجتماعات کے ذریعے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے اور آئندہ ہفتے تک الیکشن کمیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کی فہرست بھی جاری کر دے گا۔
اورکزئی ایجنسی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار جواد حسین نے وائس آف امریکہ سے جمعرات کو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ایجنسی کے بعض علاقوں میں اب بھی شدت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے جبکہ دیگر قبائلی علاقوں میں طالبان کی دھمکیوں کی وجہ سے بعض جماعتوں کے امیدوار آزادانہ طور پر انتخابی مہم نہیں چلا پا رہے۔
’’پاکستان جس مشکلات میں گھرا ہوا ہے تو جو لوگ حکومت کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور حکومت کی عمل داری کو چیلنج کرتے ہیں، اپنے آپ کو بموں سے اڑاتے ہیں تو نگراں حکومت یا الیکشن کمیشن کے بس کی بات نہیں (کہ امیدواروں کو مکمل تحفظ فرہم کرے)۔ باقی کوششں کریں گے کہ اگر زیادہ لوگ نا ہوں تو کم سے کم اس نظام کو امن کے طریقے سے چلائیں۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ طالبان اور ان کے اتحادیوں کی کھلے عام مخالفت کرتی رہی ہیں۔ گزشتہ ماہ ہی اے این پی کے سابق قانون ساز کے انتخابی قافلے پر شدت پسندوں نے اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنے حلقے میں ووٹروں سے ملنے جا رہے تھے۔ صوبائی اسبلی کے سابق رکن عدنان وزیر اس حملے میں زخمی ہوئے تھے۔
مختلف حلقوں کی طرف سے انتخابات میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے کے خدشات پر نگراں حکومت کہہ چکی ہے کہ انتخابات کو آزادانہ اور شفاف بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
حال ہی میں افغانستان سے ملحقہ خیبر ایجنسی میں فوجی کارروائیوں میں شدت دیکھی گئی ہے اور فوجی حکام کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں ہونے والے آپریشنز میں سو سے زائد شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔
ادھر سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے اپنے کاغذات نامزدگی کے مسترد ہونے کے خلاف راولپنڈی میں ایک انتخابی ٹرابیونل میں اپیل دائر کی ہے۔ ان کے وکیل سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے اپنے موکل کے خلاف ریٹرننگ افسر کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔
’’انہیں (راجہ پرویز اشرف کو) کسی عدالت نے مجرم قرار نہیں دیا۔ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پیش کیے گئے اور نا ہی انہیں کوئی سزا ہوئی ہے۔ توہین عدالت کے مقدمے میں بھی صرف نوٹس بھیجا گیا ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے راجا پرویز اشرف کے خلاف کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبے میں بدعنوانی کے الزامات پر مقدمہ دائر کرنے کے احکامات جاری کیے تھے مگر قومی احتساب بیورو کا موقف رہا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف اتنے موثر شواہد نہیں کہ ایسا کیا جائے۔
راولپنڈی ہی میں جمعرات کو ایک انتخابی ٹریبونل نے سابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کے کاغذات پر اعتراض مسترد کردیے ہیں۔
ان جماعتوں میں سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور اس کی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق کالعدم جنگجو تنظیم تحریک طالبان پاکستان ان جماعتوں کو انتخابات میں نشانہ بنانے کی دھمکی دے چکی ہے۔
انتخابات میں اب صرف ایک مہینہ باقی ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں نے بڑے اجتماعات کے ذریعے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے اور آئندہ ہفتے تک الیکشن کمیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کی فہرست بھی جاری کر دے گا۔
اورکزئی ایجنسی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار جواد حسین نے وائس آف امریکہ سے جمعرات کو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ایجنسی کے بعض علاقوں میں اب بھی شدت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے جبکہ دیگر قبائلی علاقوں میں طالبان کی دھمکیوں کی وجہ سے بعض جماعتوں کے امیدوار آزادانہ طور پر انتخابی مہم نہیں چلا پا رہے۔
’’پاکستان جس مشکلات میں گھرا ہوا ہے تو جو لوگ حکومت کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور حکومت کی عمل داری کو چیلنج کرتے ہیں، اپنے آپ کو بموں سے اڑاتے ہیں تو نگراں حکومت یا الیکشن کمیشن کے بس کی بات نہیں (کہ امیدواروں کو مکمل تحفظ فرہم کرے)۔ باقی کوششں کریں گے کہ اگر زیادہ لوگ نا ہوں تو کم سے کم اس نظام کو امن کے طریقے سے چلائیں۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ طالبان اور ان کے اتحادیوں کی کھلے عام مخالفت کرتی رہی ہیں۔ گزشتہ ماہ ہی اے این پی کے سابق قانون ساز کے انتخابی قافلے پر شدت پسندوں نے اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنے حلقے میں ووٹروں سے ملنے جا رہے تھے۔ صوبائی اسبلی کے سابق رکن عدنان وزیر اس حملے میں زخمی ہوئے تھے۔
مختلف حلقوں کی طرف سے انتخابات میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے کے خدشات پر نگراں حکومت کہہ چکی ہے کہ انتخابات کو آزادانہ اور شفاف بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
حال ہی میں افغانستان سے ملحقہ خیبر ایجنسی میں فوجی کارروائیوں میں شدت دیکھی گئی ہے اور فوجی حکام کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں ہونے والے آپریشنز میں سو سے زائد شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔
’’انہیں (راجہ پرویز اشرف کو) کسی عدالت نے مجرم قرار نہیں دیا۔ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پیش کیے گئے اور نا ہی انہیں کوئی سزا ہوئی ہے۔ توہین عدالت کے مقدمے میں بھی صرف نوٹس بھیجا گیا ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے راجا پرویز اشرف کے خلاف کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبے میں بدعنوانی کے الزامات پر مقدمہ دائر کرنے کے احکامات جاری کیے تھے مگر قومی احتساب بیورو کا موقف رہا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف اتنے موثر شواہد نہیں کہ ایسا کیا جائے۔
راولپنڈی ہی میں جمعرات کو ایک انتخابی ٹریبونل نے سابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کے کاغذات پر اعتراض مسترد کردیے ہیں۔