پاکستان کو ایسے سربراہ کی ضرورت ہے جو حکمت سے کام لے سکے: تجزیہ کار

  • قمر عباس جعفری

فائل فوٹو

پاکستان میں انتخابی نتائج آنے کے بعد آئندہ چند روز میں طے ہو جائے گا کہ آئندہ حکومت کس قسم کی ہوگی۔ کوئی مخلوط حکومت ہو گی یا کوئی ایک پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی۔ ان انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری۔ قابل قبول ہوگی یا نہیں جس کے بارے میں انتخابات سے پہلے ہی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

ایک بڑا سوال یہ ہے کہ جو بھی، جس بھی نوعیت کی حکومت بنے، کیا اسکے نتیجے میں ملک کی معاشی اور سیاسی صورت حال بہتر ہو سکے گی۔ اس سلسلے میں بیشتر تجزیہ کار سمجھتے ہیں معاشی بہتری لانے کے لئے مشکل فیصلے کرنے ہونگے۔ جس کے لئے ایک مضبوط اور مقبول حکومت اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان کے عام انتخابات ووٹ ڈالنا بہت ضروری ہے

ڈاکٹر زبیر اقبال ورلڈ بنک کے ایک سابق عہدیدار اور ممتاز تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صحیح معنوں میں تو معاشی مسائل اب شروع ہونے والے ہیں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستان پر بیرونی قرضے بہت بڑھ گئے ہیں اور اگر ان کو ادا کرنا ہے تو درآمدات بڑھانی اور بر آمد ات کم کرنی ہونگی۔ حکومتی اخراجات کم کرکے بچت میں اضافہ کرنا ہو گا اور اسکے نہ تو کوئی آثار اور نہ ہی اسکی خواہش نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر زبیر کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ جو بھی حکومت آئے گی اسکے پاس نہ تو وہ ذرائع ہونگے اور نہ وہ سیاسی گنجائش ہو گی کہ وہ یہ مشکل کام کر سکے۔ اور یہ ایک دو سال کا کام نہیں ہے۔ بلکہ اسے ٹھیک کرنے کے لئے کم از کم دس سال کی مسلسل جدو جہد اور قربانیوں کی ضرورت ہو گی جسکے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

SEE ALSO: پاکستان کے انتخابات پر بین الاقوامی میڈیا کیا کہہ رہا ہے؟

عذیر یونس امریکہ کی اٹلانٹک کونسل کے ساتھ بطور نان ریذیڈینٹ فیلو وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انکا بھی یہی کہنا تھا کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کس قسم کی حکومت بنتی ہے۔ اور اس حکومت کے بننے کے بعد ملک میں کتنا سیاسی استحکام آتا ہے اور وہ کتنے مشکل فیصلے کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا اگر رجحان وہی رہتا ہے جو دو ہزار اٹھارہ میں دیکھنے میں آیا تھا تو پھر سیاسی عدم استحکام بدستور برقرار رہے گا اور اس صورت میں معاشی حالات کی بہتری کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی ہے۔

عذیر یونس کا کہنا تھا کہ ابھی بہت سی باتوں کا واضح ہونا باقی ہے۔ جسکے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن ہوگا۔ لیکن وہ اتنا ضرور کہیں گے کہ آئیندہ دنوں میں جو بھی وزیر اعظم بنے اسے زخموں کو مندمل کرنے والا یا ہیلنگ کرنے والا ہونا چاہئیے کیونکہ اس وقت پاکستان کی معیشت کو، پاکستان کی سیاست کو اور پاکستان کے لوگوں کو ایسے سربراہ حکومت کی ضرورت ہے جو حکمت سے کام لے سکے۔

SEE ALSO: مہنگائی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے: پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت کی رائے

عذیر یونس نے کہا کہ معیشت کے لئے مارچ تک تو آئی ایم ایف کا ارینجمنٹ موجود ہے، اسکے بعد اس مقصد کے لئے ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہوگی جسکے بارے میں اس مرحلے پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کس کی اکثریت ہو گی، کون حکومت میں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ اڑان بھرنے کے لئے ابھی گنجائش موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ معاشی حالات درست نہیں ہو سکتے لیکن اگر سیاسی عدم استحکام الیکشن کے بعد بھی ختم نہیں ہوا اور اور آنے والی حکومت پر سوالیہ نشان رہا تو پھر مشکلات اور بڑھیں گی۔

عارف انصار واشنگٹن میں قائم ادارےپو لی ٹیکٹ کے چیف انالسٹ ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں اور عام تاثر بھی یہی ہےکہ خاص طور پر ملک کے معاشی حالات میں کسی بڑی بہتری کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ مشکل فیصلوں کے لئے حکومت کو مضبوط ہونا چاہئیے تب ہی ان فیصلوں پر عمل در آمد ہو سکتا ہے۔ اور جس طرح کی پاکستان کی صورت حال معاشی، سیاسی اور سیکیورٹی کے لحاظ سے ہے۔ اس میں نظر نہیں آتا کہ کوئی مضبوط اور عوام میں مقبول حکومت بن سکے۔

SEE ALSO: پاکستان میں الیکشن؛ کیا نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بنیں گے؟

ڈاکٹر ظفر بخاری شکاگو اسٹیٹ یونیورسٹی میں معاشیات اور مارکیٹنگ کے پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے قطع نظر کے ان انتخابات کے نتائج کیا آتے ہیں، پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کے لئے بہت بڑے پیمانے پر معاشی نظام میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اگر ان انتخابات کے نتیجے میں ایسی حکومت بنتی ہے جو یہ تبدیلیاں عوام کے تعاون سے لا سکے تو یہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ ورنہ انہیں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

یہ فیصلہ تو آنے والے چند دنوں ہی میں ہوگا کہ ہما کس کے سر پر بیٹھتا ہے لیکن جس کے بھی سر پر بیٹھے، اسکی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہونگی۔