پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن نے سندھ کے صحرائے تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر سے ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک منصوبے کو حتمی شکل دی ہے جس پر مارچ میں آزمائشی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے گا۔
یہ انکشاف کمیشن کے ایک رکن اور جوہری توانائی کے ماہرنامور پاکستانی سائنسدان ثمر مبارک مندنے انگریزی اخبار’ ڈان‘ کو دیے گئے انٹریو میں کیا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے لیے درکار مشینری باہر سے درآمد کرنے کے لیے پہلے ہی آرڈر دیا جا چکا ہے اور یہ سامان جلد پاکستان پہنچنے والا ہے۔
اخبار کاکہنا ہے کہ ڈاکٹر مبارک مند کی نگرانی میں شروع کیے جانے والے اس منصوبے کے تحت کھدائی کر کے کوئلے کو زمین سے باہر لانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ زیر زمین کیمیاوی ردعمل کے ذریعے گیس پید ا کی جائے گی۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ تھر میں موجود کوئلے کے مجموعی ذخائر کے محض ایک فیصد پر تجرباتی طور پر کا م شروع کیا جائے گا ۔”اس سے پاکستان آئندہ 30 سالوں تک دس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے جس پر زیادہ سے زیادہ چار روپے فی یونٹ لاگت آئے جبکہ دس کروڑ بیرل ڈیزل بھی اس سے حاصل کیا جاسکے گا۔“
ثمر مبارک مندکے مطابق تھر میں کوئلے کے ذخائر کے کم ازکم آٹھ بلا ک ہیں جن میں سے چار آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات ،برطانیہ اور ایک پاکستانی نجی کمپنی ’اینگرو‘کے لیے مختص ہیں جبکہ 64 مربع کلومیٹر پر مشتمل پانچویں بلاک پر حکومت نے خود آزمائشی طور پر کام شروع کرنے فیصلہ کیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ علاقے میں موجود کوئلے کے باقی کے ذخائر کی کھوج کے لیے ابھی کوئی کام شروع نہیں کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر مبارک مند کا کہنا ہے کہ ”ان ذخائر سے محض دس سال کے مختصر عرصے میں پاکستان توانائی کی پیداوار میں ناصرف خودانحصار ہو سکتا ہے بلکہ اپنی ضروریات سے زیادہ توانائی پید ا کرسکے گا“۔ محتاط اندازو ں کے مطابق پاکستان میں تصدیق شدہ کوئلے کے ذخائر ایک سو پچاسی ارب ٹن ہیں۔