شفقت حسین کی پھانسی موخر، چار دیگر کو پھانسی دے دی گئی

فائل فوٹو

وزیراعظم نے وزارت داخلہ کی درخواست پر صدر مملکت سے سفارش کی جنہوں نے شفقت حسین کی پھانسی کو 72 گھنٹوں کے لیے مؤخر کرنے کا حکم دیا۔

پاکستان میں ایک نوجوان شفقت حسین کو سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد 72 گھنٹوں کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے جب کہ مختلف جیلوں میں مزید چار مجرموں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔

شفقت حسین کو جمعرات کی صبح کراچی جیل میں پھانسی دی جانی تھی لیکن اس کے اہل خانہ کی طرف سے بدھ کو اس کا پیدائشی سرٹیفیکیٹ منظر عام پر آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں کے اس موقف کو تقویت ملی کہ جب شفقت حسین کو سزا سنائی گئی تھی تو وہ نابالغ تھا اور بچوں کے لیے رائج نظام عدل کے تحت نوعمر مجرم کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے جمعرات کو قومی اسمبلی میں بتایا کہ اس معاملے پر ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کے بعد عدالتی نظام پر انگلیاں اٹھائی جا رہی تھیں لہذا وزیراعظم نے وزارت داخلہ کی درخواست پر صدر مملکت سے سفارش کی جنہوں نے شفقت حسین کی پھانسی کو 72 گھنٹوں کے لیے مؤخر کرنے کا حکم دیا۔

ان کے بقول قانونی کارروائی کے دوران کبھی بھی مجرم کی عمر سے متعلق کوئی ثبوت نہیں پیش کیا گیا اور اب حکومت بھی اس ضمن میں حقائق جاننے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

شفقت حسین کو 2004ء میں ایک کم سن بچے کو اغوا اور پھر قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور اس سزا کے خلاف اس کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی تھیں۔

ملک میں سزائے موت پر عملدرآمد پر عائد پابندی گزشتہ دسمبر میں ختم کیے جانے کے بعد جنوری میں شفقت حسین کے ڈیٹھ وارنٹ جاری کیے گئے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے مجرم کی کم عمری کو مدنظر رکھتے ہوئے پھانسی روکنے کے مطالبات کے بعد اسے موخر کر دیا گیا تھا لیکن تقریباً دو ماہ بعد دوبارہ اس کے ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیے گئے۔

شفقت حسین کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے جہاں بدھ کو اس کے اہل خانہ نے ایک پریس کانفرنس میں مجرم کا پیدائشی سرٹیفیکٹ پیش کیا اور صدر پاکستان اور عدلیہ سے درخواست کی کہ اسے پھانسی نہ دی جائے۔

شفقت کی والدہ نے اپنی مادری زبان میں کچھ اس طرح اپنی تشویش اور دکھ کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا کہ اس کی عمر 14 سال تھی، میں صدر سے جج صاحبان سے کہوں گی کہ وہ میرے بیٹے کو یہ سزا نہ دیں اور اسے رہا کریں۔

دریں اثنا جمعرات کی صبح راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں تین جب کہ پنجاب کے ضلع میانوالی میں ایک مجرم کو پھانسی دے دی گئی۔

رواں ہفتے پاکستان میں اب تک 25 مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظمیوں اور یورپی یونین کی طرف سے پاکستان سے سزائے موت پر عملدرآمد کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبات تواتر سے سامنے آرہے ہیں جس میں یہ بھی کہا گیا کہ مجرموں کو پھانسی دینے سے پاکستان انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعرات کو دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ سزائے موت پر سے پابندی ختم کرنا کسی بھی طور بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

"ہمارے آئین اور ہمارے نظام قانون میں موت کی سزا ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہے جیسے کہ ہم اپنا نظام دوسروں پر مسلط نہیں کر سکتے تو ہم توقع کرتے ہیں کہ دوسرے ملک ہمارے نظام کا احترام کریں۔"

ان کا کہنا تھا کہ اپنے شہریوں کی جان کی حفاظت ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے اور پاکستان یہی کر رہا ہے۔

تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ سزائے موت پر عمل درآمد سے پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاہدے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔