وزیر اعظم عمران خان سے متعلق بھارتی وزارت خارجہ کا بیان مسترد کرتے ہوئے، پاکستان نے کہا ہے کہ ’’بھارت سفارت کاری اور معمول کے حالات کے بھاشن اپنے پاس رکھے۔‘‘
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان نے بھارتی وزارت خارجہ کی وزیر اعظم عمران خان کے کشمیر کے حوالے سے بیانات پر ردعمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بھارتی بیانات بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی عکاسی کرتے ہیں‘‘۔
ترجمان نے الزام لگایا کہ ’’بھارت حقائق کا سامنا کرنے سے کترا رہا ہے۔‘‘َ
دفتر خارجہ کے ترجمان، ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ ’’بھارتی جبر سے متاثر کشمیریوں کے لئے آواز اٹھانا ہماری عالمی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ بھارت اپنی انتہا پسندانہ نظریات اور غالبانہ بالادستی کے خواب کے وجہ سے سچ کا سامنا کرنے سے گریزاں ہے۔‘‘
بقول پاکستانی ترجمان، ’’بھارت اپنی بالادستی پر مبنی طرز عمل کے برعکس خود کو ایک نارمل ریاست ثابت کرنا چاہتا ہے‘‘۔
پاکستان کا کہنا تھا کہ ’’وہ کون سا عام ملک ہوگا جو گائے کے ذبح کرنے پر ہجوم کے ذریعے لوگوں کے قتل عام اور ’لو جہاد‘ کا نام لیکر ان کے ذمہ داروں کی سیاسی سرپرستی کرے؟‘‘
ادھر اپنی ٹوئیٹ میں ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی امریکی سینیٹر اور 2020ء کے صدارتی انتخابات کی سرکردہ امیدوار الزبیتھ وارن نے کہا ہے کہ ’’کشمیریوں کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے‘‘۔
الزبیتھ وارن نے کہا کہ کشمیر کی حالیہ صورت حال پر انھیں تشویش ہے۔
سینیٹر وارن نے کہا ہے کہ ’’امریکہ بھارت پارٹنرشپ ہمارے مشترکہ جمہوری اقدار کا جزو ہے۔ مجھے کشمیر کی حالیہ صورت حال پر تشویش ہے، جس میں مواصلاتی نظام کی مسلسل بندش اور دیگر پابندیاں شامل ہیں۔ کشمیریوں کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے‘‘۔
اس سے قبل، گزشتہ روز بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ایک بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ’’پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو بین الاقوامی سفارتی آداب نہیں آتے‘‘ اور ’’وہ وزیر اعظم جیسے عہدے کے قابل نہیں ہیں‘‘۔
رویش کمار نے اپنی بریفنگ میں کہا تھا کہ ’’عمران خان کے آزاد کشمیر میں جا کر وہاں کے لوگوں کو کنٹرول لائن تک مارچ کرنے اور ایسے ہی دیگر اقدامات کے حوالے سے اس طرح کے بیان پہلی بار نہیں آئے ہیں‘‘۔
بقول بھارتی ترجمان، ’’عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس طرح کی اشتعال انگیز تقریر کی اور جس قسم کی زبان کا استعمال کیا، بھارت اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے‘‘۔
ترجمان بھارتی دفتر خارجہ نے ترکی اور ملائیشیا کی جانب سےکشمیر پر مبینہ بھارتی مظالم و بربریت پر بات کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ’’کشمیر میں آرٹیکل اے 370 کے حوالے سے بھارتی حکومت کا فیصلہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ کشمیر پر بیان دینے سے قبل کشمیر کی صورتحال معلوم ہونا چاہیے‘‘۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پلوامہ واقعہ کے بعد سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور 5 اگست کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد کشیدگی بڑھی ہے۔
اس صورتحال میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور امریکہ میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
تاہم، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ میں تو نہیں البتہ ہیوسٹن میں ایک جلسہ عام میں پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وہ لوگ کشمیر کی بات کر رہے ہیں جن سے اپنا دیش بھی نہیں سنبھالا جا رہا‘‘۔