عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف کے صدر نے کہا ہے کہ اکتوبر میں پاکستان کے بلیک لسٹ ہونے کا امکان موجود ہے، کیونکہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے حوالے سے ابھی تک تسلی بخش اور مؤثر نوعیت کے اقدامات نہیں کیے گئے۔
امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر آرلینڈو میں اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے ایف اے ٹی ایف کے صدر ارشل بلنگسلی کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ادارے کی تمام شرائط پر ابھی تک عمل نہیں کیا۔ اکتوبر میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ اس نے دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے کس حد تک اقدامات کیے ہیں۔
ایک اور خبر کے مطابق ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے منی لانڈرنگ اور سرحد پار ٹیرر فنانسنگ سے متعلق شرائط پورا نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان نہ صرف جنوری بلکہ مئى 2019 کی ڈیدلائن بھی پورا نہیں کر سکا۔ پاکستان نے طے شدہ ایکشن پلان پر کام مکمل نہیں کیا۔ اور اگر اکتوبر تک یہ شرائط پوری نہیں کی جاتیں تو اس حوالے سے فیصلہ لیا جائے گا۔
36 ممالک کے اس بورڈ میں سے، جس میں یورپی یونین اور خلیج تعاون کونسل کے ممالک بھی شامل ہیں، ترکی اور ملائیشیا اور چین نے پاکستان کے حق میں رائے دی جس کی وجہ سے اسے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے۔
گرے لسٹ سے باہر آنے کے لیے پاکستان کو 36 ممالک میں سے 15 کی حمایت درکار ہو گی۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر مارشل بلنگسلی کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کا امکان موجود ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے پاکستان میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے قوانین موجود ہیں۔ لیکن ان کے نفاذ میں رکاوٹیں ہیں۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ وفاقی سطح پر منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسگ کو روکنے کے لیے بہت کام ہوا ہے۔ لیکن، صوبائی سطح پر مسائل موجود ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی گرے اکانومی یعنی غیر دستاویزی معیشت کو سسٹم میں ڈاکومنٹ کر لیا جائے تو پاکستان کے مسائل کافی حد تک حل ہو سکتے ہیں۔
عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے گزشتہ سال جون میں پاکستان کا نام عالمی تنظیم کی گرے لسٹ میں شامل کر دیا تھا۔
امریکہ، برطانیہ اور بھارت اس تحریک کے محرک تھے جس میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے، 'انادولو' کے مطابق پاکستان بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے عالمی تنظیم کے تین رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ تاہم، ایف اے ٹی ایف کے طرف سے اس بابت حتمی فیصلہ ہونے تک پاکستان کے لیے خطرات بدستور موجود ہیں۔
بھارت اس وقت ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسفک گروپ میں شریک ہے اور پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کی کوششوں میں سرگرم ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ پاکستان منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی ضابطوں پر پوری طرح عمل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی زبردست سفارتی کوششوں کے باعث ترکی، ملائیشیا اور چین نے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی مخالفت کی جس کے بعد فی الحال یہ خطرہ ٹل گیا ہے۔
یہ اطلاعات 16 سے 21 جون تک امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں جاری رہنے والے ایف اے ٹی ایف اجلاس کے بعد سامنے آئی ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کے چارٹر کے مطابق، بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے تنظیم کے 36 ملکوں میں سے تین ملکوں کی حمایت لازمی ہے۔
ترکی کے خبر رساں ادارے کے مطابق، پاکستانی دفتر خارجہ کے بعض عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے مثبت پیش رفت ہے۔ دوست ممالک نے اس ضمن میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ تاہم، پاکستان کے لیے خطرہ مکمل طور پر ابھی ٹلا نہیں ہے۔
اطلاعات کے مطابق، پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی تجویز پر حتمی فیصلہ رواں سال اکتوبر میں پیرس میں ہونے والے اجلاس کے دوران کیا جائے گا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان اطلاعات پر باضابطہ طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم، سابق سفیر اور سنٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹیڈیز کے سربراہ علی سرور نقوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے اس معاملے پر بہترین سفارت کاری کا مظاہرہ کیا۔
رواں سال فروری میں ایف اے ٹی ایف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے جنوری 2019ء کی ڈیڈلائن پر خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی ہے۔ اس لیے ایف اے ٹی ایف نے مزید اقدامات کے لیے پاکستان کو مئی 2019ء کی ڈیڈلائن دی تھی۔
ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کے بعد پاکستان میں متعدد شدت پسند تنظیموں بشمول کالعدم جماعت الدعوة اور جیش محمد پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ ان کے اثاثے ضبط کرنے کے اقدامات بھی سامنے آئے تھے۔