پاکستان فلم انڈسٹری کی تباہی، وابستہ افراد کو روزگار کےمتبادل ذرائع کی تلاش

پاکستان فلم انڈسٹری کی تباہی، وابستہ افراد کو روزگار کےمتبادل ذرائع کی تلاش

سنہ 1970 میں سالانہ 200 سے زائد فلمیں تیار کرنے والی پاکستان فلم انڈسٹری ان دنوں شدید بحران سے دوچار ہے۔

انڈسٹری سے وابستہ درجنوں افراد نے بحران کے بعد اس کے دوبارہ اپنے پاوٴں پر کھڑے ہونے کی امید چھوڑ دی ہے اور زورگار کے متبادل ذرائع تلاش کرنا شروع کردیئے ہیں۔ ان افراد میں فلمساز، ہدایت کار، فنکار اور دیگر تکنیکی ماہرین اور عملہ شامل ہے۔

وی اواے کے نمائندے کی جانب سے کی جانے والی تحقیق اورمشاہدے کے مطابق انڈسٹری کے عروج کو گہن لگنے کا آغاز سابق فوجی سربراہ مملکت ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں ہوا۔ ضیاء الحق اس خیال کے حامی تھے کہ گانا بجانا اور ناچنا اسلامی تعلیمات کے عین خلاف ہے، لہذا انہوں نے اسے انڈسٹری ماننے سے ہی انکار کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومتی سرپرستی کی متلاشی فلم انڈسٹری رفتہ رفتہ کمزور پڑتی چلی گئی اور آج یہ حال ہے کہ سال میں صرف چار چھ فلمیں ہی تیار ہو پاتی ہیں۔

فلمی صنعت کی تباہی سے سنیما ہالز ویران ، بیشتر منہدم
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ایک وقت تھا کہ جب پاکستان میں 700 سے زائد سینما گھر فعال تھے جوضیاالحق اور ان کے بعد سے اب تک کم ہوتے ہوتے ایک سو سے بھی کم ہوگئے ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں فلم ”خدا کیلئے“ ،”محبتاں سچیاں“ ،” بول“، ”لو میں گم“ اور ”بھائی لوگ“ ریلیز ہوئی ہے اور ان فلموں نے اچھابزنس بھی کیا لیکن گنتی چنتی کی چند فلموں سے انڈسٹری کا بحران کم نہیں ہوسکتا ۔ آج حالت یہ ہے کہ فلم سے وابستہ تمام شراکت داروں نے روزگار کے متبادل ذرائع تلاش کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

پاکستان کے دارالحکومت میں ایک بھی سنیما گھرنہیں
یہ بات باعث دلچسپ ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں آج ایک بھی سنیما ہال موجود نہیں۔ لاکھوں کی آبادی رکھنے والا یہ شہر 1990 ء میں 4 سینما گھروں کا حامل تھا جن کے نام” نیف ڈیک ون“ ،” نیف ڈیک ٹو“،” میلوڈی“ اور” کوہسار“ تھے۔نیف ڈیک سنیما گھروں کو معاشی مسائل کے باعث بند کرنا پڑا جبکہ میلوڈی سنیما میں 6 اکتوبر2003ء کو آگ کیا لگی ، اسے پھر کبھی کھولا ہی نہیں جاسکا ۔جی سیون میں ” کوہسار “کے نام سے ایک اورسنیما گھر قائم تھا لیکن اسے بھی بزنس نہ ہونے کے باعث بندکردیا گیا۔

راولپنڈی کے سنیما گھر شاپنگ پلازہ میں تبدیل
دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی میں بھی سینما گھروں پر فلم انڈسٹری کا بحران بجلی بن کر ٹوٹا جس کے بعد یہاں کے زیادہ تر سنیما ہالزگراکر شاپنگ سینٹرز اور شادی ہالز میں تبدیلی کردیئے گئے۔ یہاں گزشتہ چند سالوں میں 6 سے 7 سینما گھروں کو ختم کیا جاچکا ہے جبکہ جو سنیما بچ گئے ہیں انہیں بھی مالکان بند کرنے کا پروگرام ترتیب دے چکے ہیں۔

جڑواں شہروں میں قائم سنیماہالز کی مجموعی تعداد کے بارے میں بات کی جائے تو یہاں تقریباً 10 سال قبل 20 سے زائد سینما گھر تھے ۔ان میں ناز سینما، شبستان سینما، گلستان سینما، موتی محل، ریالٹو، سنگیت سینما اورامپیریل سنیماخاصے مشہورتھے۔

لاہور،پشاور،کوئٹہ،کراچی ،فیصل آباد، ملتان ،گوجرانوالہ اور حیدر آباد میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔یہاں بھی سینما گھروں کو گراکر ان کی جگہ بڑے بڑے شاپنگ پلازہ تعمیر کئے جاچکے ہیں۔

پاکستان کے سینئر فلمی صحافی محمد شاہد خان عرف م ش خ نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے پاکستان فلم انڈسٹری کی تباہی کی وجوہات بتائے ہوئے کہا کہ تباہی کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ غیرمعیاری پروڈکشن بھی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ دو دھائیوں سے ایسی فلمیں بن رہی ہیں جن کا نہ تو ہماری ثقافت ہی سے کوئی رشتہ ہے اور نہ ہی روایات سے۔ بعض باتیں تو مافوق الفطرت ہوتی ہیں۔ کہانی میں جھول ، پروڈکشن میں پروفیشنل ازم کی کمی ، بے ہنگم موسیقی، فحش رقص اور گھٹیا اداکاری کے سبب لوگوں نے سینماگھروں کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ رہی سہی کسر پہلے وی سی آر اور اب کیبل نے پوری کردی۔ جب ناظرکو بیڈ روم میں ہی اٹھتے بیٹھتے فلمیں دیکھنے کو مل جائیں گی تو وہ سنیما ہال کا رخ کیوں کرے گا۔ پھر سنیما ہالز کا معیار بھی وہ نہیں رہاجو ایک سنیما ہال کا ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی فیملی کو سنیما ہال لانے کا سوچتا بھی نہیں۔

اس سلسلے میں جب کچھ فلم بینوں سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ فلم بنانے والوں کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور جدید آلات ہی نہیں پھر وہ بھلا21 ویں صدی کے تقاضوں کے عین مطابق کس طرح فلم بناسکیں گے۔

ایک فلمی شائق تبسم کہتی ہیں” پاکستانی فلم انڈسٹری کے الحیاء یا بقا کے لئے کچھ دماغوں نے میڈیا ہاوٴسز کے ساتھ مل کر فلم کا تجربہ کیا اور خوب سرمایہ بھی لگایا لیکن اس کے خاطرخواہ تنائج برآمد نہ ہوسکے۔منافع ہونا تو دور کی بات ہے خرچہ تک نہیں نکل سکا۔

ملک میں انڈسٹری کی بحالی کے لئے پڑوسی ممالک کی فلمیں اپنے یہاں ریلیز کرانے کا تجربہ بھی کیا گیا۔ یہ تجربہ کسی حد تک کامیاب رہا اور اس کی وجہ سے ملک میں خاص کر کراچی میں ایک دو جدید ترین سنیما ہالز بھی تعمیر ہوئے اور کسی حد تک ان سنیماگھروں میں لوگوں کی بھیڑ بھی دیکھی گئی مگراس سے مقامی انڈسٹری کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اسے آج بھی ’تازہ آکسیجن ‘کی سخت ضرورت ہے۔

دوسری طرف فلم سے وابستہ فنکاروں نے پرائیویٹ ٹیلی پروڈکشنز کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا ہے اور زیادہ ترفلمی اداکار ٹاک شوز کرتے نظر آرہے ہیں یا پھرنجی ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں جلوہ گر ہورہے ہیں جبکہ ایکسٹراز اور انڈسٹری سے وابستہ دیگر افراد نے بھی شدید مالی مسائل سے دوچار ہونے کے باعث متبادل کاروبار شروع کردیئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے اس مسئلے کی طرف توجہ دی ہے اورانڈسٹری کو بحران سے نکالنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں لیکن انڈسٹری کو بحران سے نکالنے کیلئے یہ ناکافی ہیں۔

گزشتہ سال یعنی 2010ء پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ بدترین سال تھا جس میں کوئی بھی قومی زبان کی فلم ریلیز نہیں ہوسکی جبکہ اس سے پہلے سال یعنی2009ء میں بھی اردو کی صرف تین فلمیں ہی ریلیز ہوئی تھیں ۔ فلم ساز و ہدایت کار جرار رضوی کے مطابق وہ فلم سن آف پاکستان عیدالاضحی پر پیش کرنا چاہتے تھے مگر مرکزی سینماوٴں کے نہ ملنے اور ان کی تعداد نہایت کم ہونے کے سبب انہیں اپنی فلم کی نمائش ملتوی کرنا پڑی۔

گزشتہ سال ہی عید الاضحی کے موقع پر گنتی کی تین پاکستانی پنجابی فلمیں ”نمبردارنی“، ”الیاسا گجر“ اور ایک پرانی فلم” چن مہر“ نئے نام ”بلو بلا“ کے نام سے ریلیز کی گئی مگر عید کے تین دن بعد ہی سنیما ویران ہوگئے ۔ اس صورتحال نے مذکورہ فلموں کی نمائش کرنے والے سینما مالکان اور ڈسٹری بیوترز اور فلمسازوں کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔

آئندہ ریلیز ہونے والی چند ایک نئی پاکستانی فلموں کے فلمسازوں او ر ڈسٹری بیوٹرزاور سینما مالکان کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے کیوں کہ سینما مالکان موجودہ بحران کی وجہ سے مزید مالی نقصانات برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ عیدالاضحی تک موجودہ سال میں گنتی کی صرف دس فلموں ”چناں سچی مچی“، ”ووہٹی لے کے جانی ایں“،” جیروتے نظام پھول اور کانٹے“ ،” حسینوں کا میلہ“،” ٹیکسی نمبر سات سو سات“،” حسینہ ٹوئنٹی ٹوینٹی“ ،” الیاسا گجر“ ،” نمبردارنی“ اور” بلو بلا“، کی نمائش کی گئی۔