ملک بھر میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور دریاؤں میں شدید سیلاب کے پیش نظر متاثرہ علاقوں میں صورت حال مزید بگڑنے کا امکان ہے جب کہ امدادی سرگرمیوں میں مبینہ سست روی کے باعث سیلاب زدگان کے درمیان پائے جانے والے اشتعال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔
ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب سے پاکستانی عہدے داروں کے مطابق دو کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں جو کل آبادی کا تقریباً 12 فیصد بنتے ہیں جب کہ ملک کا 20 فیصد رقبہ اس آفت کی زد میں آیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ میں گدو اور سکھر کے مقامات پر سیلاب کے باعث خیرپور، جیکب آباد، گھوٹکی، سکھر، لاڑکانہ، نواب شاہ، حیدرآباد، اور نوشہروفیروز کے اضلاع میں مزید نشیبی علاقے زیر آب آسکتے ہیں۔
پیر کے روز صوبہ سندھ کے ضلع سکھر میں بیسیوں متاثرین نے علاقے سے گزرنے والی مرکزی شاہراہ کو گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق مظاہرین کا کہنا تھا کہ سرکاری حکام اور سیاسی رہنما صرف میڈیا کی موجودگی میں ان کو خواراک کی تقسیم کرنے آتے ہیں جب کہ ان کی امداد کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ایک روز قبل پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا جس کے بعد انھوں نے راولپنڈی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ سیلاب سے وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی سے نمٹنے کے لیے امداد کی فراہمی کے عمل میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ تمام سرکاری ادارے بشمول فوج سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں لیکن غیر معمولی تباہی کے پیش نظر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مقامی و بین الاقوامی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں آلودہ پانی کے استعمال اور حفظان صحت کی ناقص صورت حال کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ ہے جس سے اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکام نے صوبہ خیبر پختون خواہ، جہاں اب تک سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں، متاثرین میں جلدی امراض کی نشاندہی کی ہے۔
صوبائی عہدے دار ضیا الحسنین نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ جن علاقوں سے جلدی امراض کی شکایات موصول ہوئی ہیں حکومت نے وہاں طبی ماہرین کو روانہ کر دیا ہے جب کہ مختلف ذرائع سے متاثرین کو صفائی ستھرائی پر توجہ دینے کے پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں۔
ضیاالحسنین کا کہنا تھا کہ یہ مسائل آلودہ پانی کے استعمال کے باعث سامنے آرہے ہیں اور صورتحال میں بہتری لانے کے لیے ٹینکروں کے ذریعے صاف پانی بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ سیلاب سے 895,000سے زائد مکانات متاثر ہو چکے ہیں۔ جب کہ صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں ایک وسیع رقبے پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے جس کا تخمینہ کم از کم ایک ارب ڈالر ہے۔
اقوام متحدہ نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے 46 کروڑ ڈالر کی عالمی اپیل کر رکھی ہے۔ عالمی تنظیم کے حکام کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کو اب تک ساڑھے 12 کروڑ ڈالر کی امداد کی یقین دہانی کرائی جا چکی ہے جب کہ اس کے علاوہ عطیات دینے والے ممالک اور تنظیموں نے پاکستانی حکومت اور دیگر اداروں کو 18 کروڑ ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
خاطر خواہ امداد فراہم کرنے والے ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے جس نے سات کروڑ 60 لاکھ ڈالر امداد کے اعلان کے علاوہ متاثرین کی محفوظ مقامات پر منتقلی اور ان کو امدادی اشیاء کی ترسیل کے لیے ہیلی کاپٹر بھی فراہم کر رکھے ہیں۔