برطانوی غیر سرکاری تنظیم اوکسفیم نے پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں سیلاب زدگان کے لیے عالمی برادری کی طرف سے امداد کی فراہمی کی رفتار کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر امداد جلد موصول نا ہوئی تو حالات سنگین شکل اختیار کر لیں گے۔
تنظیم کے اسلام آباد میں ایک عہدے دار مبشر اکرم نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ عالمی برادری کی طرف سے اب تک اعلان کردہ امداد مجموعی اپیل کا محض تین فیصد حصہ بنتی ہے۔
’’ایک ایسی صورت حال میں جہاں تقریباً 90 لاکھ لوگ سندھ میں براہ راست اور بُرے طریقے سے متاثر ہوئے ہیں اور تقریباً 14 ہزار لوگ صوبہ بلوچستان میں متاثر ہوئے ہیں ان کے لیے اقوام متحدہ کی اپیل کے 10 دنوں میں تقریباً 35 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے جواب میں صرف ایک کروڑ 15 لاکھ ڈالر کا اکٹھا ہونا کوئی اتنی اچھی خبر نہیں ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ وسائل کی عدم دستیابی سے امدادی سرگرمیاں شدید متاثر ہوں گی۔
مبشر اکرم کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ میں متاثرین کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو دو سالوں میں دوسری بار بدترین سیلاب کا سامنا کر رہے ہیں۔
’’سندھ کی 72 فیصد آبادی کو سیلاب سے پہلے ہی خوراک کی کمی کا سامنا تھا اور اب اس قدرتی آفت کے باعث صوبے میں تقریباً 73 فیصد کھڑی فصلیں تباہ ہو جانے سے صورت حال مزید سنگین ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘
اوکسفیم کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے کو خوراک، صاف پانی، عارضی ٹھکانوں اور صحت کی سہولتوں کی اشد ضرورت ہے۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے تقریباً 68 لاکھ ایکڑ رقبہ متاثر ہوا ہے اور 15 لاکھ سے زائد مکانات یا تو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں یا اُنھیں جزوی نقصان پہنچا ہے۔ این ڈی ایم اے نے سیلاب کے باعث 431 افراد کی ہلاکت کی تصدیق بھی کی ہے۔