این ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر 50 لاکھ سے زائد افراد کی امداد کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں۔
اسلام آباد —
مون سون کی بارشوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز پاکستان میں آئندہ ہفتے سے متوقع ہے جس سے حکام کے مطابق جنوبی پنجاب اور اس سے ملحقہ صوبہ بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں سیلاب بھی آسکتے ہیں۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مرکزی ترجمان کامران ضیاء نے ہفتے کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے ملک کے بیشتر دریاؤں اور دیگر آبی ذخائر میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ 25 اگست سے ستمبر کے پہلے ہفتے تک ان میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
’’جہاں بند یا پل ٹوٹنے کا خطرہ ہے وہاں پتھر، مشینری اور دیگر سامان پہنچا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے، آرمی اور دیگر اداروں نے کشتیاں اور واٹر پمپ اسٹریٹیجک پوزیشن پر پہنچا دیے ہیں تاکہ روڈ لنک منقطع ہونے کی صورت میں وہ مہیا ہوسکیں۔‘‘
کامران ضیاء کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر 50 لاکھ سے زائد افراد کی امداد کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سیلاب اور بارشوں کے باعث مختلف حادثات میں 96 افراد ہلاک جبکہ صرف سیلاب سے متاثرین کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہوچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچے بند ٹوٹنے سے اب تک کئی دیہاتوں میں کھڑی فصلیں بھی زیر آب آچکی ہیں۔
این ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق سیلاب سے متاثرین میں زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی ہے جو نشیبی علاقوں میں غیرقانونی پر طور رہ رہے ہیں۔
’’یہ وہ دیہات ہیں کچے کے علاقے میں ہیں۔ چونکہ عام دنوں میں دریا کا پھیلاؤ اتنا نہیں ہوتا تو اس کے دائیں بائیں لوگ آباد کاری کرلیتے ہیں کیونکہ وہ زمین زیادہ زرخیز ہوتی ہے۔ ان لوگوں کو پہلے سے اطلاع کی جاتی ہے لیکن یہ لوگ نہیں نکتے پھر کوشش ہوتی ہے کہ انہیں وہاں سے زبردستی نکالا جا سکے۔‘‘
کامران ضیاء کا کہنا تھا کہ این ڈے ایم اے سیلاب سے پیدا ہونے والی کسی بھی ممکنہ سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
’’گزشتہ سال کی نسبت ابھی تک تو 10 فیصد سے بھی کم تباہ کاری ہوئی ہے اور آدھے سے زیادہ مون سون کا موسم گزر گیا ہے۔ امید ہے چیزیں ہینڈل ہو جائیں گی کیونکہ واٹر پمپ کے علاوہ ہمارا اسٹاک ویسے کا ویسے پڑا ہے اور صوبوں نے بھی پورا اسٹاک استعمال نہیں کیا۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے بھی ہفتے کو پنجاب میں سیلاب سے چند متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو متاثرین کی بھرپور امداد کی ہدایت کی۔
پاکستان کو گزشتہ تین سالوں سے مون سون کے موسم میں مسلسل سیلابوں کا سامنا ہے اور بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیموں کی تعمیر سے نہ صرف سیلابی تباہ کاریوں سے بچاؤ ممکن ہے بلکہ اس پانی کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں بھی لایا جاسکتا ہے۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مرکزی ترجمان کامران ضیاء نے ہفتے کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے ملک کے بیشتر دریاؤں اور دیگر آبی ذخائر میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ 25 اگست سے ستمبر کے پہلے ہفتے تک ان میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
’’جہاں بند یا پل ٹوٹنے کا خطرہ ہے وہاں پتھر، مشینری اور دیگر سامان پہنچا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے، آرمی اور دیگر اداروں نے کشتیاں اور واٹر پمپ اسٹریٹیجک پوزیشن پر پہنچا دیے ہیں تاکہ روڈ لنک منقطع ہونے کی صورت میں وہ مہیا ہوسکیں۔‘‘
کامران ضیاء کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر 50 لاکھ سے زائد افراد کی امداد کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سیلاب اور بارشوں کے باعث مختلف حادثات میں 96 افراد ہلاک جبکہ صرف سیلاب سے متاثرین کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہوچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچے بند ٹوٹنے سے اب تک کئی دیہاتوں میں کھڑی فصلیں بھی زیر آب آچکی ہیں۔
این ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق سیلاب سے متاثرین میں زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی ہے جو نشیبی علاقوں میں غیرقانونی پر طور رہ رہے ہیں۔
’’یہ وہ دیہات ہیں کچے کے علاقے میں ہیں۔ چونکہ عام دنوں میں دریا کا پھیلاؤ اتنا نہیں ہوتا تو اس کے دائیں بائیں لوگ آباد کاری کرلیتے ہیں کیونکہ وہ زمین زیادہ زرخیز ہوتی ہے۔ ان لوگوں کو پہلے سے اطلاع کی جاتی ہے لیکن یہ لوگ نہیں نکتے پھر کوشش ہوتی ہے کہ انہیں وہاں سے زبردستی نکالا جا سکے۔‘‘
کامران ضیاء کا کہنا تھا کہ این ڈے ایم اے سیلاب سے پیدا ہونے والی کسی بھی ممکنہ سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
’’گزشتہ سال کی نسبت ابھی تک تو 10 فیصد سے بھی کم تباہ کاری ہوئی ہے اور آدھے سے زیادہ مون سون کا موسم گزر گیا ہے۔ امید ہے چیزیں ہینڈل ہو جائیں گی کیونکہ واٹر پمپ کے علاوہ ہمارا اسٹاک ویسے کا ویسے پڑا ہے اور صوبوں نے بھی پورا اسٹاک استعمال نہیں کیا۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے بھی ہفتے کو پنجاب میں سیلاب سے چند متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو متاثرین کی بھرپور امداد کی ہدایت کی۔
پاکستان کو گزشتہ تین سالوں سے مون سون کے موسم میں مسلسل سیلابوں کا سامنا ہے اور بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیموں کی تعمیر سے نہ صرف سیلابی تباہ کاریوں سے بچاؤ ممکن ہے بلکہ اس پانی کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں بھی لایا جاسکتا ہے۔