پاکستان میں اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ سیارے کے ذریعے حاصل کی گئی تصاویر کے مطابق 15 اضلاع میں 28 لاکھ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
اسلام آباد —
اقوام متحدہ نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے پانی اور حفظان صحت کی سہولتوں کی فراہمی کا عمل تیز کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ تین سے چھ ماہ کے دوران تقریباً چار لاکھ لوگوں کو تعلیم، بچوں کے تحفظ، صحت اور اُن کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے عالمی برادری سے ایک کروڑ 54 لاکھ ڈالر ہنگامی امداد کی اپیل کی ہے۔
بچوں کے لیے عالمی تنظیم کے ادارے، یونیسف، نے کہا ہے دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اُس نے ہنگامی امداد کے لیے قائم فنڈ سے قرض لے کر مختلف اضلاع میں روزانہ ایک لاکھ 83 ہزار سیلاب متاثرین کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔
ان میں بلوچستان کے نصیر آباد اور جعفر آباد، پنجاب میں ڈیرہ غازی خان، جبکہ سندھ کے جیکب آباد اور کشمور کے اضلاع شامل ہیں۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان اور امدادی تنظیموں کے مشترکہ طور پر سیارے کے ذریعے حاصل کی گئی ابتدائی تصاویر کے مطابق 15 اضلاع میں 28 لاکھ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن میں چودہ لاکھ بچے ہیں۔
یونیسف کا کہنا ہے کہ پانچ شدید متاثرہ اضلاع میں تعلمیمی اداروں کو نقصان پہنچنے یا پھر عمارتوں کے مہندم ہونے یا متاثرین کے لیے اُن کی عارضی کیمپوں میں تبدیلی سے بچوں کی اکثریت ان اسکولوں میں جانے سے محروم ہوگئی ہے۔
’’بعض متاثرہ بچوں کا تعلق ایسے علاقوں سے ہے جو مسلسل دو یا تین سالوں سے سیلاب کی زد میں آ رہے ہیں اور حالیہ سیلابوں سے وہاں بحالی کے عمل میں بھی خلل پڑا ہے۔‘‘
بچوں کے لیے عالمی تنظیم کے ادارے، یونیسف، نے کہا ہے دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اُس نے ہنگامی امداد کے لیے قائم فنڈ سے قرض لے کر مختلف اضلاع میں روزانہ ایک لاکھ 83 ہزار سیلاب متاثرین کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔
ان میں بلوچستان کے نصیر آباد اور جعفر آباد، پنجاب میں ڈیرہ غازی خان، جبکہ سندھ کے جیکب آباد اور کشمور کے اضلاع شامل ہیں۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان اور امدادی تنظیموں کے مشترکہ طور پر سیارے کے ذریعے حاصل کی گئی ابتدائی تصاویر کے مطابق 15 اضلاع میں 28 لاکھ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن میں چودہ لاکھ بچے ہیں۔
یونیسف کا کہنا ہے کہ پانچ شدید متاثرہ اضلاع میں تعلمیمی اداروں کو نقصان پہنچنے یا پھر عمارتوں کے مہندم ہونے یا متاثرین کے لیے اُن کی عارضی کیمپوں میں تبدیلی سے بچوں کی اکثریت ان اسکولوں میں جانے سے محروم ہوگئی ہے۔
’’بعض متاثرہ بچوں کا تعلق ایسے علاقوں سے ہے جو مسلسل دو یا تین سالوں سے سیلاب کی زد میں آ رہے ہیں اور حالیہ سیلابوں سے وہاں بحالی کے عمل میں بھی خلل پڑا ہے۔‘‘