پاکستان کے وفاقی وزیر برائے خوراک و زراعت نذر محمد گوندل نے ملک میں لوگوں کو ناکافی مقدار میں اشیاء خورونوش کی دستیابی کے بارے میں عالمی تنظیموں کی تشویش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان غذائی تحفظ کے لحاظ سے ’محفوظ ترین‘ ملک ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں گندم ، چاول اور دالوں سمیت تما م ضروری اجناس کے وافر ذخائر موجود ہیں جو اُن کے بقول مقامی ضرورت سے زائد ہیں ۔
’’پاکستان فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے اس وقت دنیا کا محفوظ ترین ملک ہے اور میں یہ بات ریکارڈ کے مطابق کر رہا ہوں۔‘‘
اپنے موقف کی دلیل دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ رواں سال گندم برآمد بھی کی جارہی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کے سیلاب زدہ اضلاع کے بیشتر علاقوں میں گندم کی بروقت کاشت کا عمل مکمل ہو چکا ہے جب کہ ایسے علاقے جہاں یہ ممکن نہیں ہوا وہاں سورج مکھی کی فصل کاشت کی جائے گی۔
تاہم عالمی ادارہ برائے خوراک یا ڈبیلو ایف پی کے ایک عہدیدار صاحب حق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اُن کے ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ سال کی پہلی شش ماہی کے دوران پاکستان کی 48 فیصد سے زائد آبادی کو عالمی معیار سے کم خوراک دستیاب تھی اورجولائی 2010ء میں آنے والے سیلاب کے بعد اس شرح میں مزید تین فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔
صاحب حق نے کہا کہ ملک میں رواں سال خوراک دستیاب تو ہے لیکن قوت خرید نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت کے لیے اپنی ضرورت کے مطابق خوراک کا حصول ممکن نہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ گندم کی قیمت میں اضافے سے صرف 10 فیصد بڑے کاشت کاروں کا فائدہ ہوا ہے کیوں کہ اُن کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد کسان اپنی زمین سے اتنی صرف گندم حاصل کرتے ہیں جو اُن کی اپنی ضرورتوں کے لیے کافی ہوتی ہے۔ لیکن وزرات خوراک کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گندم کی قیمت بڑھانے سے کسان زیادہ سے زیادہ اس فصل کو کاشت کر رہے ہیں جس سے ناصرف وہ مستفید ہو رہے ہیں بلکہ گندم کی بوائی اور کٹائی کرنے والے مزدوروں کے لیے بھی روزگار کے وسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں جولائی 2010ء میں آنے والے سیلاب سے لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کے باغات کو نقصان پہنچا تھا لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں میں کسانوں اور زراعت کی بحالی کے لیے اقدامات کر رہی ہے جب کہ کئی عالمی تنظیمیں بھی اس کام میں حکومت کی معاونت کر رہی ہیں۔