اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا کی آبادی 2025ء سے 2030ء کے دوران 8 ارب اور 2050ء تک 9 ارب ہو جائے گی ۔ کیا دنیا اتنی بڑی آبادی کی خوراک کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے تیار ہے ؟کیا پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک دنیا کی اناج کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے ؟
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا کی آبادی کو 2012ء کے وسط تک 7 ارب تک پہنچنا تھا ، لیکن یہ پیش گوئی ایک سال پہلے ہی پوری ہو گئی ۔ آبادی کے 9 ارب کا ہندسہ عبور کرنے کی 2050ء تک کی پیش گوئیاں کتنی درست ثابت ہوتی ہیں ، یہ بھی آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ لیکن اس صورت میں دنیا کو جتنی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنی ہونگی ، ان کی تعداد بھارت کی موجودہ آبادی سے زیادہ ہوگی۔
پال دوروش انٹرنیشنل فوڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ترقیاتی حکمت عملی کے شعبےکے ڈائریکٹر ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ یہ بہت اہم ہے کہ دنیا خوراک کی پیداوار جاری رکھے اور بڑھائے ، اور اگر وسیع طور پر دیکھا جائے تو پچھلے 30/40 سال میں اناج کی پیدوار میں اضافہ ہوا ہے ۔ لیکن خوراک کی پیداوار بڑھنے کا مطلب یہ نہیں کہ غریب لوگوں کو یہ ملے گی بھی ۔ خوراک تک رسائی کا مسئلہ بھی ہے ۔ کیا لوگوں کے پاس اپنے خاندانوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ایسے وسائل ہیں کہ وہ اپنی خوراک خود اگانے یا خریدنے کے قابل ہوں ۔
عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے 2010ء میں جاری کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق دنیامیں 92 کروڑ 50 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں ، ان میں سب سے کم تعداد ترقی یافتہ ملکوں میں ، اور سب سے زیادہ ایشیا بحرلکاہل اور سب صحارن افریقی ملکوں میں ریکارڈ کی گئی ۔اب تک ایسے کوئی اعدا وشمار دستیاب نہیں جن سے معلوم ہو سکے کہ جنہیں کھانے کو میسر بھی ہے، انکی خوراک کتنی صحت بخش ہے ۔ تاہم دنیا کی آبادی 7 ارب ہو نے کا مطلب ہے کہ دنیا کا ہر ساتواں شخص بھوکا ہے ۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے سیکرٹری زراعت عارف ندیم کہتے ہیں کہ دنیا کی خوراک کی ضرورتیں پوری کرنے میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے ، جہاں پچھلے تین سال سے گندم کی بہترین فصل ہو رہی ہے اوراس سال صرف صوبہ پنجاب نے10 لاکھ ٹن گندم بیرون ملک برآمد کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوڈ سیکیورٹی کوئی مسئلہ نہیں لیکن اناج کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا تعلق عالمی منڈی کی قیمتوں سے ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ زراعت اگر 8 فیصد کی رفتار سے ترقی کرے تو کسی ملک کی معیشت 10 سے 11 فیصد کی رفتار سے ترقی کرتی ہے ۔ لیکن گندم یا اناج کے بجائے غیر روایتی اجناس کاشت کرنے سے دنیا بھر میں روزگار اور معیشت کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے ۔
عارف ندیم کہتے ہیں کہ اگر آپ گندم لگائیں ، تو آپ دو نوکریاں فی ایکٹر مہیا کرتے ہیں ، اس کے مقابلے میں اگر آم کا باغ لگائیں کینو ، آلو ،گوبھی ، چقندر لگائیں ، تو 9نوکریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ ہارٹی کلچر سے زیادہ نوکریاں نکلتی ہیں ۔ اس لیے صرف ایک فصل اگانا کوئی عقلمندی نہیں ہوگی ۔ کئی ملکوں نے ہائی ویلیو زراعت سے فائدہ اٹھایا ہے ، اس سے گندم پیدا والے کسان کو بھی ترغیب ملتی ہے کہ وہ اعلیٰ کوالٹی کا بیج استعمال کرے اور فصل کا خیال رکھے۔
ماہرین کے مطابق اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا کی آبادی بڑھنے کی رفتار کم ہوئی ہے ، لیکن اگر آبادی ایک فیصد کی رفتار سے بھی بڑھ رہی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ہر سال کم از کم سات کروڑ نئے انسانوں کو پیٹ بھر خوراک کی ضرورت رہے گی ، جس کے حل کے لئے آبادی بڑھنے کی رفتار میں مزید کمی لانا ضروری ہے ۔لیکن پاکستان جیسے ملکوں کے لئے آنے والے وقت میں خوراک کی پیداوار سے زیادہ غربت ایک بڑا چیلنج ہوگا ، جس سے نمٹنے کے لئے ماہرین کا خیال ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار اور فی کس آمدنی بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔