پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کرونا وائرس کے باعث عائد کردہ لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کرتے ہوئے ملک بھر میں سنیما کی رونقوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سنیما انڈسٹری کھولنے کے لیے حکومت نے بعض قواعد و ضوابط (ایس او پیز) جاری کیے ہیں۔
لیکن ماہرین کے مطابق حکومت کی ریستوران، شاپنگ مالز اور پارکس کے لیے طے شدہ ہدایات کے مقابلے میں سنیما انڈسٹری کے لیے تجویز کردہ ایس او پیز کو نافذ کرنا سنیما مالکان کے لیے مشکل دکھائی دیتا ہے۔
ان قواعد و ضوابط کو نافذ کرنے کے لیے سنیما مالکان کو بہت وقت درکار ہو گا۔
سنیما کے لیے ایس او پیز ہیں کیا؟
حکومتِ پاکستان کی جاری کردہ ہدایات کے مطابق تمام سنیما ہالوں میں صرف 40 فی صد نشستوں پر بیٹھنے کی اجازت ہو گی۔ ایک فلم بین کی سیٹ کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں نشست خالی ہو گی۔
حکومتی ہدایت کے مطابق سنیما میں کون کون سی نشستیں خالی ہیں، یہ بتانے کا انتظام بھی کیا جائے اور خیال رکھا جائے کہ جو بھی فلم سنیما میں دکھائی جائے اس کا دورانیہ صرف 40 منٹ سے ایک گھنٹہ ہو۔
حکومتی ایس او پیز میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ قائم رکھنا ضروری ہو گا۔ فلم بینوں کا ہاتھ ملانے اور گلے ملنے پر پابندی ہو گی۔ ٹکٹ کی خریدو فروخت کاؤنٹر پر کرنے کے بجائے آن لائن نظام کےتحت کی جائے۔
سنیما مالکان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیسے کے لین دن کے وقت گیلے اسپنج کا استعمال کریں۔ سنیما کے اندر اور باہر صفائی کا خاص خیال رکھنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں جن میں سینیٹائزیشن کے عمل کو یقینی بنانا بھی شامل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکومتی ایس او پیز کے مطابق چہرے پر ماسک پہنے بغیر کسی بھی شخص کو سنیما ہال میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔ سنیما کے عملے کے لیے بھی ماسک پہننا لازم ہو گا۔
سنیما مالکان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مناسب وینٹیلیشن کے انتظام کے ساتھ ساتھ ہر آنے والے شخص کا داخلے کے وقت درجۂ حرارت چیک کرنے کا انتظام کریں۔ اگر کسی فرد کو کرونا وائرس ہونے کا خدشہ ہو تو اسے سنیما ہال میں جانے سے روک دیا جائے۔
کیا یہ ایس او پیز فالو کیے جا سکتے ہیں؟
کراچی کے مشہور ایٹریم سنیما اور اسلام آباد کے سینٹورس سنیما کے مالک ندیم مانڈوی والا سمجھتے ہیں کہ حکومت کے ایس او پیز پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مذکورہ ایس او پیز کو جاری کرنے سے پہلے اگر سنیما مالکان سے رائے لے لی جاتی تو سنیما کھولنے میں آسانی ہو سکتی تھی۔
ندیم مانڈوی والا کے مطابق "میرے خیال میں سنیما کھو لنے میں ابھی کچھ مہینے اور لگیں گے۔ خاص طور پر ان ایس او پیز کے ساتھ جن کا اعلان کیا گیا ہے۔ سنیما اگر کھل بھی گئے تو فلمیں دستیاب نہیں ۔اور نہ ہی مقامی فلمیں ریلیز کے لیے تیار ہیں اور ہالی وڈ میں بھی چند ایک فلموں کے علاوہ باقی کی ریلیز تعطل کا شکار ہے۔"
سنیما ہال میں 40 فی صد نشستوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ ایسے فیصلے سے سنیما مالکان کو نقصان ہو گا۔
ان کے بقول صرف 40 فی صد لوگوں کے لیے پورا سنیما ہال کھولنے میں کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ سنیما کی ایک اسکرین چلانے کا جو خرچہ آتا ہے، وہ بھی ایک شو سے پورا نہیں ہو گا۔ بجلی کا بل، کیمرے کے چارجز اور جس مال میں سنیما ہے اس کا کرایہ، یہ سب کچھ ادا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے سے اخراجات پورے نہیں کیے جا سکتے۔
SEE ALSO: جنوبی ایشیا کا پہلا ڈیجیٹل فلم فیسٹیول، پاکستان کی چار فلمیں شاملفلم اور ٹی وی کے اداکار سمیع خان کا کہنا ہے کہ سنیما انڈسٹری کھولنے کے لیے حکومتی ایس او پیز پر عمل درآمد کرنا ایک مشکل کام ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ نیٹ فلکس، ایمیزان پرائم اور زی فائیو کی عادت پڑ جانے کے بعد لوگوں کو سنیما کی طرف واپس کھینچنا ایک مشکل کام ہو گا۔
سمیع خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سنیما میں لوگ صرف فلم دیکھنے نہیں جاتے بلکہ دوستوں کے ساتھ خوش گوار وقت گزارنے آتے ہیں۔ جس میں وہ کیریمل یا نارمل پاپ کارن، کافی، برگر اور کولڈ ڈرنکس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بڑی اسکرین پر فلم دیکھتے ہیں۔
ان کے بقول حکومتی ایس او پیز کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لوگوں کو سنیما بلانے کے لیے نہیں بلکہ بھگانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
سمیع خان کا کہنا ہے کہ جس شخص نے یہ ایس او پیز بنائی ہیں شاید وہ خود بہت عرصے سے سنیما ہی نہیں گیا۔ ورنہ اُنہیں معلوم ہوتا کہ کوئی بھی فلم دو گھنٹے سے کم دورانیے کی نہیں ہوتی۔ انہیں معلوم ہوتا کہ سنیما کا کارپٹ نکال دینے سے ساؤنڈ پر بہت برا اثر پڑے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فلم بین کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں کی اگر سیٹ خالی ہو تو اس سے بہتر ہے کہ لوگ گھر بیٹھ کر فلمیں دیکھ لیں۔ کیوں کہ اندھیرے میں اکیلے بیٹھ کر فلم دیکھنے میں کسی کو مزہ نہیں آتا۔ ساتھ ہی ساتھ صفائی کا خیال رکھنا بہت مشکل ہو گا کیوں کہ لوگ کہاں سے آ رہے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ڈسٹری بیوٹرز بھی حکومتی ایس او پیز سے نالاں
پاکستان کی سب سے بڑی ڈسٹری بیوشن کمپنی 'آئی ایم جی سی' کی چیف مینیجر سبینا اسلام کا کہنا ہے کہ سنیما کھولنے کا فیصلہ کر کے حکومت نے بال تو سنیما مالکان کی کورٹ میں ڈال دی ہے۔ لیکن سنیما چلانے کے لیے فلموں کے بارے میں بھی سوچ لیتے تو بہتر ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ایس او پیز بناتے وقت کسی ڈسٹری بیوٹر سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔ کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں فلم انڈسٹری بحران کا شکار ہے۔ فلمیں مکمل کرنے اور ریلیز کرنے کے لیے وقت درکار ہے جس کے بعد ہی سنیما کھولے جا سکیں گے۔
سبینا اسلام کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی فلم انڈسٹری میں کام رکا ہوا ہے۔ جو فلمیں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں مکمل ہونے والی تھیں ان پر آخری چھ ماہ میں کام شروع ہو گا۔ اسی طرح باقی فلموں کا شیڈول بھی متاثر ہو گا۔
اُن کے بقول رواں برس سنیما کو کھولنا مناسب نہیں ہو گا کیوں کہ لوگ سنیما صرف اس وقت جائیں گے جب نئی فلمیں آئیں گی اور نئی فلمیں تب ہی آئیں گے جب ان پر کام ختم ہو گا۔
حکومتی ایس او پیز پر تنقید کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایس او پیز میں صاف صاف لکھا ہے کہ صرف 40 فی صد سنیما کی نشستوں پر لوگوں کو بیٹھنے کی اجازت ہے یعنی 60 فی صد نشستیں خالی ہوں گی۔ تقریباً ویران سنیما میں فلم چلانے سے نہ صرف سنیما مالکان بلکہ ڈسٹری بیوٹرز کو بھی نقصان ہو گا۔
ان کے بقول اگر سنیما مالکان ان قواعدوضوابط کے حوالے سے سختی کریں گے تو لوگ گھروں میں ہی بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔
سبینا اسلام کا کہنا تھا کہ 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ'، 'سوری اے لو اسٹوری'، جیسی فلمیں ابھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ جب تک یہ ریلیز نہیں ہوتیں، سنیما مالکان کو چاہیے کہ لوگوں کو سنیما کی طرف لانے کے لیے نئے طریقوں کی طرف جائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سنیما کھل تو جائیں گے مگر فلمیں نہیں ہیں۔ ایسے میں اگر ترک فلمیں یا ایرانی فلمیں لگائی جائیں تو اِن ایس او پیز کے ساتھ ان کا بھی چلنا مشکل ہے۔
سبینا اسلام کے مطابق فرانس نے سنیما کھولنے کی کوشش تو کی تھی لیکن فلم بین نہ ہونے کے برابر تھے اس لیے تمام سنیما بند کرنا پڑے۔
اداکار سمیع خان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کے ایس او پیز سنیما کے حق میں بہتر ہوتے تو سنیما انڈسٹری کے لیے بھی بہتر ہوتا۔
ان کے بقول حکومتی ایس او پیز کے ساتھ لوگ سنیما جانے سے کترائیں گے اور اُس وقت تک دور رہیں گے جب تک کرونا وائرس کی ویکسین نہیں آ جاتی۔ اس کے بعد ہی دنیا بھر میں سنیما کھلیں گے اور فلمیں ریلیز بھی ہوں گی۔
سمیع خان کا مزید کہنا ہے کہ جب تک کرونا وائرس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک لوگ سماجی دوری پر عمل درآمد کرتے ہوئے 'ہوم انٹرٹینمنٹ' سے فائدہ اٹھائیں تا کہ کرونا سے بچاؤ بھی ہو اور اسے پھیلنے سے بھی روکا جائے۔