پاکستان میں حکومت کا معاشی بحالی کے منصوبے کا اعلان اور فوج کا اس کی حمایت کا معاملہ موضوعِ بحث ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی میدان میں بہتری کے لیے فوج کی حمایت ناگزیر ہے جب کہ کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ معاشی مسائل حل کرنا منتخب حکومت کا ہی کام ہے۔
معاشی بحالی کے منصوبے کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے 'اسپیشل انویسٹمنٹ فسلی ٹیشن کونسل'یا ایس آئی ایف سی، قائم کی گئی ہے جس کا پہلا اجلاس منگل کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہوا ہے
حکومت کے مطابق کونسل کے پہلے اجلاس میں آرمی چیف، وزرائے اعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزرا اور اعلیٰ حکامِ شریک ہوئے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کونسل کے ذریعے بیرونِ ملک سرمایہ کاری کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں گی اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے گا۔
یہ اعلان ایسے موقع پر کیا گیا جب ابوظہبی پورٹس گروپ نے کراچی کی بندرگاہ کو عالمی معیار کا مرکز بنانے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس عمل میں فوج کی شمولیت سے پاکستان نے یہ پیغام دیا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کے لیے تمام ادارے متحد ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بیورو کریٹک رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس سے وابستہ ڈاکٹر عبدالجلیل کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک عرصے سے سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نہ مقامی سرمایہ کار پیسہ لگا رہے ہیں اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ ایسے میں معیشت سست روی کا شکار ہے۔
ڈاکٹر عبدالجلیل کا کہنا تھا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فسلی ٹیشن کونسل خواہشات کی ایک فہرست ہے۔ سرمایہ کاری کسی ملک نے نہیں، بلکہ کاروباری افراد کو کرنی ہوتی ہے۔
SEE ALSO: اپنے وطن میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں مگر ماحول تو بنے، پاکستانی نژاد امریکیاُن کے بقول کاروباری افراد صرف اس وقت سرمایہ لگاتے ہیں جب انہیں یقین ہو کہ سرمایہ نہیں پھنسے گا۔ ان سے کوئی یہ نہیں پوچھے گا کہ یہ سرمایہ کہاں سے آیا ۔قواعد و ضوابط کے چکر میں زیادہ نہیں پھنسایا جائے گا اور منافع ملے گا۔ اگر یہ عوامل معیشت میں موجود ہیں تو سرمایہ کاری آئے گی، ورنہ نہیں آئے گی۔
اُن کے بقول غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی طرح کے اجازت نامے درکار ہوتے ہیں جب کہ طرح طرح کی دستاویزات طلب کی جاتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں ڈالر کا ریٹ، مہنگائی اور دیگر عوامل اس قدر غیریقینی اور عدم استحکام کا شکار ہیں کہ کوئی یہاں اپنا سرمایہ کیوں لگائے گا؟ اگر صرف کاروبار کے ماحول کو بہتر بنا لیا جائے اور کاروبار میں آسانیاں پیدا کر دی جائیں تو سرمایہ کاری خودبخود ہو گی۔
ڈاکٹر عبدالجلیل کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں میں بورڈ آف انویسٹمنٹ موجود ہیں لیکن کبھی ان سے سوال ہوا کہ وہ کتنی سرمایہ کاری ملک میں لے کر آئے ہیں۔
کیا اس کونسل سے سرمایہ کاری ممکن ہو گی؟
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کونسل کے قیام کا مقصد ہے کہ عرب ممالک اور چین سے آنے والے سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کی جائیں۔
اُن کے بقول یہ ممالک چاہتے ہیں کہ سویلین لیڈرشپ کے ساتھ ساتھ ان کے منصوبوں کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہو ۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شامل ہونے کی وجہ سے انہیں ریگولیٹری رکاوٹوں کا بھی کم سامنا کرنا پڑے گا۔ ان معاملات کو دیکھتے ہوئے یہ کونسل قائم کی گئی ہے اور امکان ہے کہ اس کے ذریعے جلد نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
خرم شہزاد نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے مذاکرات زیادہ کامیاب نہیں ہو رہے اور ہمیں ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ایسا ہوناممکن ہے لیکن اس کے لیے ٹیم کی ضرورت ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت جن شعبوں میں سرمایہ کاری کی بات ہو رہی ہے ان میں سے کئی ایک میں فوج براہ راست شامل رہی ہے لہذا اگر فوج اس عمل میں شامل ہوگی تو سرمایہ کاری کے منصوبے آسان ہوجائیں گے۔
خرم شہزاد نے کہا کہ پاکستان میں صرف بیرونی سرمایہ کاری لانا کافی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سی مشکلات پاکستان میں موجود ہیں جن میں کرنسی کی مشکلات ہیں، ٹیکس کےامور اور سیاسی عدم استحکام جیسے معاملات ہیں۔
معاشی تجدید کا منصوبہ ہے کیا؟
’اکنامک ریوائیول پلان‘ کے عنوان سے تیار کردہ اس قومی حکمتِ عملی کا مقصد پاکستان کو در پیش موجودہ معاشی مسائل اور بحرانوں سے نجات دلانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔
حکومت کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف کی صدارت میں کونسل کے پہلے اجلاس میں آرمی چیف، وزرائے اعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزرا اور اعلیٰ حکامِ شریک ہوئے۔
اس منصوبے کے تحت زراعت، لائیو اسٹاک، معدنیات، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی اور زرعی پیداوار جیسے شعبوں میں پاکستان کی اصل صلاحیت سے استفادہ کیا جائے گا۔
ان شعبوں کے ذریعے پاکستان کی مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائی جائے گی۔
منصوبے کے تحت 'ایک حکومت اور اجتماعی حکومت' کے تصور کو فروغ دیا جائے گا تاکہ سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔
یہ کونسل سرمایہ کاری میں سہولت کے لیے 'ون ونڈو' کی سہولت کا کردار ادا کرے گی۔
’ساز گار ماحول کے بغیر سرمایہ کاری ممکن نہیں‘
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس سے وابستہ ڈاکٹر عبدالجلیل کہتے ہیں کہ ملک میں دو برس سے سیاسی عدم استحکام ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے پر یقین نہیں کر رہے۔ عام آدمی فوج پر اعتماد نہیں کر رہا۔ فوج سیای رہنماؤں پر اعتبار نہیں کر رہی۔ سیاست دان اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد نہیں کر رہے ۔ ایسے میں آئی ایم ایف بھی ہم پر اعتبار نہیں کررہا۔ہمارے ڈونرز ہم پر یقین نہیں کر رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج کے آنے سے امکان ہے کہ شاید سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوجائے۔ اگر معیشت میں آسانی فراہم کی جائے اور ٹیکس،رولز ، این او سیز میں آسانیاں پیدا کی جائیں تو کاروبار ہوسکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق بھارت میں بھی یہی ہوا کہ لائسنس کا سلسلہ ختم کر دیا گیا تھا لیکن پاکستان میں ایک کھوکھا کھولنے کے لیے بھی سوال کیا جاتا ہے کہ اس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ہر 50 ہزار کی ٹرانزیکشن پر 0.06 فی صد ٹیکس دینا ہوگا۔ ایسے ماحول میں کاروبار کیا خاک ہوگا۔
ان کے بقول حکومت ایک طرف کاروبار کرنے کا کہتی ہے جب کہ ساتھ ہی ٹرانزیکشن پر پابندیاں بھی لگاتی ہے۔ ایسے میں کاروبار نہیں ہوسکتا۔ کاروبار کے لیے ساز گار ماحول کے بغیر سرمایہ کاری ممکن نہیں۔
ڈاکٹر عبدالجلیل نے مزید کہا کہ پاکستان میں کوئی بھی عام کاروبار شروع کرنے سے پہلے کاغذی کارروائیوں میں ڈیڑھ سال کا وقت درکار ہوتا ہے اور اسی وجہ سے جب کوئی کاروبار شروع ہوتا ہے تو اس کی فیزبیلٹی ضائع ہو چکی ہوتی ہے۔
فوج کی شمولیت سے کیا بہتری ہوگی؟
حکومتی اقدام پر فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ فوج کی انتظامی صلاحیتیں سول اداروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ ماضی قریب میں کرونا وبا کے دوران فوج نے بہت تیزی کے ساتھ اقدامات کیے تھے۔ اگر فیصلہ سازی پروفیشنلز کے پاس رہے اور عمل درآمد فوج کی مدد سے کیا جائے تو بہت جلد نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
ان کے بقول یہ ہائبرڈ ماڈل پہلے بھی کامیاب ہوا تھا اور مزید بھی کامیابی سے چل سکتا ہے۔
نعیم خالد لودھی نے مزید کہا کہ اگر اس معاملے میں فوج نے لیڈ لینے کی کوشش کی اور خود سے معاملات کو چلانے کی کوشش کی تو نقصان ہوگا کیوں کہ ڈرائیونگ سیٹ پر صرف ماہرین کو ہی ہونا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں بھی ایسی ہی کمیٹیوں کی تشکیل،ان میں فوجی افسران کی شمولیت اور ناکامی کے بارے میں لیفٹننٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے کہا کہ اس وقت نتائج اس وجہ سے نہیں آئے کیوں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ وزیرِ خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک ، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کی تعیناتیوں کا کام بھی کر رہے تھے۔ ان کے بقول یہ فوج کا کام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب فوج کا سربراہ یہ کہے کہ اس کی پسند کے لوگوں کو مقرر کیا جائے تو کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس میں ان شعبوں کے ماہرین کو ہی شامل ہونا چاہیے۔
جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ ماضی میں زلزلے کے وقت بہت سے ممالک پاکستان کی مدد کرنا چاہتے تھے جن میں سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات شامل تھے۔ ان ممالک نے واضح طور پر کہا کہ اگر یہ پیسہ فوج کے ذریعے خرچ کیا جائے تو ہم دینے کو تیار ہیں۔ اسی وجہ سے کئی علاقوں میں اسپتال، اسکول اور دیگر ادارے تعمیر کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں براہِ راست پیسے کے معاملات میں فوج آئے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں بدعنوانی نہیں ہوتی۔ فوج کے ہوتے ہوئے بھی کرپشن ممکن ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ مالی معاملات میں فوج کو شامل کیے بغیر صرف انتظامی معاملات میں ان کی مدد لی جائے اور تمام منصوبوں کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے ۔
فوج کے اس کونسل میں شامل ہونے کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالجلیل نے کہا کہ سی پیک کا جب آغاز ہوا تو اس وقت بھی فوج نے اس میں دلچسپی دکھائی تھی جس کی وجہ سے ایک میسج چلا جاتا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اسے کرنے میں سنجیدہ ہے۔ دیگر ادارے اس میں ساتھ مل جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کاروباری افراد کا اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ فوج ہے یا کوئی اور، ان کا مقصد صرف اپنے منافع کمانا ہے۔
کتنے ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے؟
پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کا دعویٰ ہے کہ تین مختلف ممالک نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے 20 سے 25 ارب ڈالرز مختص کیےہیں۔
نجی نشریاتی ادارے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے مصدق ملک نے کہا کہ جس چیز کو پلان بی کہا جا رہا تھا آج وہ لوگوں کے سامنے آگیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے معاہدے میں تاخیر غیر معمولی ہے۔ لہٰذا چین، سعودی عرب اور قطر پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ان ممالک سے یہ بات طے کر لی گئی ہے کہ وہ کن کن شعبوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔
مصدق ملک کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کو سہولت دینے کے لیے تین سطح پر کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جن میں سے ایک کمیٹی کی سربراہی خود وزیرِ اعظم کریں گے، جس میں کابینہ کے ارکان اور آرمی چیف بھی ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اگلے پانچ سے سات سال کے لیے 112 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا پلان پیش کیا گیا ہے۔