صدر زرداری نے کہا کہ گوادر ممکنہ طور پر خطے میں تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ وسط ایشیائی ممالک کو قریب لانے کی کنجی ثابت ہو سکتا ہے
اسلام آباد —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کی بندرگاہ 2007ء میں 25 کروڑ ڈالر کی لاگت سے مکمل کی گئی تھی جس کے لیے 80 فیصد سرمایہ کاری چین نے فراہم کی تھی۔
لیکن سلامتی کے خدشات اور شاہراہوں کے ناکافی ڈھانچے کی وجہ سے اس بندرگاہ پر مکمل طور پر سرگرمیاں شروع نا ہو سکیں۔
گزشتہ دنوں کابینہ کی منظوری کے بعد پیر کو اس بندرگاہ کا انتظام چین کی ایک سرکاری کمپنی کو دے دیا گیا۔
ایوان صدر میں پیر کو منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں صدر آصف علی زرداری اور پاکستان میں چین کے سفیر لیو جیان بھی شریک تھے۔
پاکستان میں اراکین پارلیمان اور اقتصادی ماہرین اس معاہدے کو ایک خوش آئند پیش رفت قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے ملک خصوصاً بلوچستان میں معاشی سرگرمیوں کے نئے راستے کھلیں گے۔
وزیر مملکت برائے مواصلات دوست محمد مزاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گوادر کی بندرگاہ پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہے۔
’’جب گوادر کی بندرگاہ فعال ہو جائے گی تو یہ ایک بہت ہی اہم راستہ بن جائے گا مشرق وسطیٰ سے ملانے کے لیے، چین ہمیشہ سے پاکستان کا بہت اچھا دوست رہا ہے اور پاکستان نے ہمیشہ چین پر انحصار کیا ہے اور جن حالات سے پاکستان گزر رہا ہے ان میں گوادر کی بندرگاہ چین کو دینا ایک بہت ہی اہم فیصلہ ہے‘‘۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ چین کی سرکاری کمپنی کی طرف سے اس بندرگاہ کا انتظام سنبھالنے سے بلوچستان میں مزید سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گی۔
’’اس سے بہت سارے بلواسطہ اور بلاواسطہ معاشی موقعے پیدا ہوں گے جس سے جہاں پاکستان کو فائدہ ہو گا وہاں سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کی عوام کو ہو گا، ان کے لیے نوکری کے مواقعے پیدا ہوں گے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو گا، ان کی زمینوں کی مالیت بڑھ جائے گی، اور یہ انقلابی تبدیلی لے آئے گا بلوچستان کے لوگوں کی زندگی میں۔‘‘
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ اس معاہدے سے پاکستان کے لوگوں بالخصوص بلوچستان کے لوگوں کے لیے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔
صدر زرداری نے کہا کہ ’’گوادر ممکنہ طور پر خطے میں تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ وسط ایشیائی ممالک کو قریب لانے کی کنجی ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔
چین اپنے استعمال کا ساٹھ فیصد خام تیل مشرق وسطیٰ کی ریاستوں سے منگواتا ہے جس میں آئندہ سالوں میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے۔ توقع ہے کہ چین تیل کی درآمد کے لیے اس بندرگاہ کو استعمال کرے گا۔
لیکن سلامتی کے خدشات اور شاہراہوں کے ناکافی ڈھانچے کی وجہ سے اس بندرگاہ پر مکمل طور پر سرگرمیاں شروع نا ہو سکیں۔
گزشتہ دنوں کابینہ کی منظوری کے بعد پیر کو اس بندرگاہ کا انتظام چین کی ایک سرکاری کمپنی کو دے دیا گیا۔
ایوان صدر میں پیر کو منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں صدر آصف علی زرداری اور پاکستان میں چین کے سفیر لیو جیان بھی شریک تھے۔
پاکستان میں اراکین پارلیمان اور اقتصادی ماہرین اس معاہدے کو ایک خوش آئند پیش رفت قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے ملک خصوصاً بلوچستان میں معاشی سرگرمیوں کے نئے راستے کھلیں گے۔
وزیر مملکت برائے مواصلات دوست محمد مزاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گوادر کی بندرگاہ پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہے۔
’’جب گوادر کی بندرگاہ فعال ہو جائے گی تو یہ ایک بہت ہی اہم راستہ بن جائے گا مشرق وسطیٰ سے ملانے کے لیے، چین ہمیشہ سے پاکستان کا بہت اچھا دوست رہا ہے اور پاکستان نے ہمیشہ چین پر انحصار کیا ہے اور جن حالات سے پاکستان گزر رہا ہے ان میں گوادر کی بندرگاہ چین کو دینا ایک بہت ہی اہم فیصلہ ہے‘‘۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ چین کی سرکاری کمپنی کی طرف سے اس بندرگاہ کا انتظام سنبھالنے سے بلوچستان میں مزید سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گی۔
’’اس سے بہت سارے بلواسطہ اور بلاواسطہ معاشی موقعے پیدا ہوں گے جس سے جہاں پاکستان کو فائدہ ہو گا وہاں سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کی عوام کو ہو گا، ان کے لیے نوکری کے مواقعے پیدا ہوں گے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو گا، ان کی زمینوں کی مالیت بڑھ جائے گی، اور یہ انقلابی تبدیلی لے آئے گا بلوچستان کے لوگوں کی زندگی میں۔‘‘
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ اس معاہدے سے پاکستان کے لوگوں بالخصوص بلوچستان کے لوگوں کے لیے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔
صدر زرداری نے کہا کہ ’’گوادر ممکنہ طور پر خطے میں تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ وسط ایشیائی ممالک کو قریب لانے کی کنجی ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔
چین اپنے استعمال کا ساٹھ فیصد خام تیل مشرق وسطیٰ کی ریاستوں سے منگواتا ہے جس میں آئندہ سالوں میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے۔ توقع ہے کہ چین تیل کی درآمد کے لیے اس بندرگاہ کو استعمال کرے گا۔