وزیر اعظم پاکستان کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی شرائط اور تفصیلات کو ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے پہلے عام نہیں کیا جا سکتا۔
حکومت کی معاشی ٹیم کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ’’یہ تاثر غلط ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے پر بھاری سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا قرض 3.20 فیصد سالانہ شرح سود پر ملے گا‘‘۔
ان کے مطابق، آئی ایم ایف سے قرض لینے پر شرح سود نسبتاً کم ہوتا ہے، جب کہ عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کے بعد ملک میں سرمایہ کاری لانے میں آسانی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پروگرام پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ پروگرام کی تفصیلات نہیں بتائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر تفصیلات معلوم نہیں تو یہ کیسے نتیجہ نکال لیا گیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہیں‘‘۔
حفیظ شیخ نے کہا کہ ’’آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں ایسی کوئی شرائط نہیں ہیں جو ماضی کے پروگرام میں نہ ہوں۔ لہذا، اس پر تنقید وہی جماعت کرے جو ماضی میں عالمی مالیاتی ادارے کے پاس نہیں گئی‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ پاکستان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی آئندہ چند ہفتوں میں منظوری دے دے گا، جس کے بعد پروگرام پر عملدرآمد شروع ہوجائے گا‘‘۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک سے پاکستان کو دو سے تین ارب ڈالر پروگرام قرض کی صورت مل سکیں گے، جو کہ گذشتہ دو سال سے رکے ہوئے تھے۔
حفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت سنبھالی تو معیشت پر ایک ساتھ بہت سے مسائل منڈلا رہے تھے، زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب سے کم اور 20 ارب ڈالر کے مالیاتی خسارے کا سامنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’دوست ممالک سے حاصل ہونے والی مالی معاونت کے ساتھ معاشی اصلاحات کے اقدامات اٹھائے گئے اور آنے والا سال معیشت کے استحکام کا سال ہوگا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت مارکیٹ میں اعتماد بحال ہوا ہے اور رواں ہفتے اسٹاک ایکسچینج میں دس سال کی تیز ترین ٹریڈنگ سامنے آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے بھی پاکستان کی معیشت کے حوالے سے مثبت جائزے پیش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ایسے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جو معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈال دیں گے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ ’’آئندہ بجٹ میں فوج سمیت سرکاری اداروں میں کفایت شعاری کا بجٹ ہوگا اور مختلف شعبوں میں اخراجات کو کم اور بچت کو فروغ دیا جائے گا‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’’بجلی پر 230 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی، جب کہ کھانے پینے کی اشیا پر سبسڈی میں 30 ارب روپے کا اضافہ کیا جا رہا ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’’افواج پاکستان سمیت تمام ریاستی ادارے ایک ہی صفحے پر ہیں اور جب ملک کے دفاع کی بات آئے تو سب سے پہلے ملک کی سرحدوں کا دفاع ہوتا ہے‘‘۔