پاکستانی حکام نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود پاک فوج شدت پسند گروپ 'حقانی نیٹ ورک' کے خلاف کاروائی نہیں کرے گی۔
امریکی ٹی وی چینل 'سی این این' نے پیر کو ایک نامعلوم پاکستانی فوجی عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ پاک فوج نے فیصلہ کیا ہے کہ 'حقانی نیٹ ورک' کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
عہدیدار نے 'سی این این' کو بتایا کہ پاکستانی فوج کا موقف ہے کہ وہ ملک کے شمال مغربی علاقوں میں شدت پسندوں سے نبٹنے میں پہلے ہی خاصی مصروف ہے اور "اس موقع پر فوج اس قابل نہیں کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی آپریشن " شروع کرسکے۔
امریکہ کا الزام ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں 'حقانی نیٹ ورک' سے تعلق رکھنے والے طالبان شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔
دریں اثناء فرانسیسی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق ایک سینئر پاکستانی فوجی عہدیدار نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں اس بات کے "اشارے" نہیں ملتے کہ پاکستانی فوج 'حقانی نیٹ ورک' کے خلاف کاروائی کرے گی۔
ایجنسی کے مطابق اعلیٰ اہلکار، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کو اس وقت اپنی ان کامیابیوں کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے جو اسے افغانستان سے منسلک سرحد کے مختلف مقامات پر شدت پسندوں کے خلاف حاصل ہوئی ہیں۔
اس سے قبل پیر کی صبح ایک پاکستانی اخبار 'دی ایکسپریس ٹربیون' نے ایک نامعلوم فوجی عہدیدار کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی فوج کے کمانڈرز نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے 'حقانی نیٹ ورک' کے خلاف کاروائی کے مطالبات کی مزاحمت کی جائے گی۔
اخبار کے مطابق یہ فیصلہ فوج کے کور کمانڈرز کے اتوار کو ہونے والے ہنگامی اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کی تھی۔
واضح رہے کہ واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی' پر 'حقانی نیٹ ورک' اور اس کے شدت پسندوں کو افغانستان میں موجود امریکی مفادات پر حملوں میں مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ ان کاروائیوں میں رواں ماہ کابل میں واقع امریکی سفارت خانے پر حملہ بھی شامل ہے۔
امریکہ کے سبک دوش ہونے والے جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن نے گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹروں کو بتایا تھا کہ 'آئی ایس آئی' حقانی نیٹ ورک کے ذریعہ افغانستان میں افغان اور اتحادی افواج کے خلاف 'پراکسی جنگ' لڑ رہی ہے۔
امریکی سینیٹرز کو اپنی بریفنگ میں ایڈمرل ملن نے دعویٰ کیا تھا کہ رواں ماہ کابل میں امریکی سفارت خانے اور نیٹو افواج کے صدر دفتر پر ہونے والے حملوں میں حقانی نیٹ ورک ملوث تھا جسے اس کاروائی میں 'آئی ایس آئی' کی مدد حاصل تھی۔
پاکستان کی حکومت اور فوج نے ان امریکی الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
ادھر پیر کو پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی نے پاک امریکہ کشیدگی کے باعث پیدا ہونے والی بحرانی صورتِ حال کے پیشِ نظر اپنا دورہ برطانیہ منسوخ کردیا۔ دورے کے دوران جنرل کیانی کو برطانوی وزیرِ دفاع لیام فوکس سے بھی تخلیہ میں ملاقات کرنا تھی۔
دریں اثناء پاکستان کے وزیرِاعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف امریکی الزامات پر متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس جمعرات کو طلب کرلیا ہے۔
ادھر پاک-امریکہ تعلقات میں کشیدگی کے باعث پاکستان کی اسٹاک مارکیٹس بھی بحران کی زد میں آگئی ہیں اور پیر کو ملک کے سب بڑے بازارِ حصص 'کراچی اسٹاک ایکسچینج' میں حصص کے کاروبار میں تین فی صد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔