شمالی وزیرستان کے ایک 16 رکنی نمائندہ وفد نے ہفتہ کی شام پشاور میں صوبہ خیبر پختون خواہ کے گورنر مسعود کوثر سے ملاقات کی، جس کا بنیادی مقصد افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے میں ترقیاتی کام کو تیز کرنا اور قبائلی عوام کو درپیش معاشی مسائل کا جائزہ لینا تھا۔
اس جرگے میں شامل شمالی وزیرستان کے قبائلی رہنما ملک نصرالله خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وفد کے اراکین نے گورنر کو یقین دلایا کے اُن کے علاقے میں نا تو پاکستانی طالبان کے سربراہ حکیم الله محسود کے وفادار جنگجو موجود ہیں اور نا ہی افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے وہاں کوئی ٹھکانے ہیں۔
اس قبائلی رہنما کے بقول ”شمالی وزیرستان میں صورت حال بالکل پر امن ہے ، اس لیے قبائلی سمجھتے ہیں کہ اس علاقے میں کسی فوجی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔“
قبائلی وفد میں شامل دیگر اراکین نے صوبائی گورنر کو بتایا کہ طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے علاقے میں کوئی دہشت گرد کارروائی نا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ”اگر ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو قبائلی خود اس کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں گے۔“
لیکن ان قبائلی رہنماؤں کے دعوں کے برعکس امریکی حکام کا الزام ہے کہ افغانستان کے سرحدی صوبوں میں اتحادی افواج کے خلاف حملوں میں ملوث عسکریت پسند ان کارروائیوں کے لیے شمالی وزیرستان کو استعمال کرتے ہیں، جن میں حقانی نیٹ ورک سرِ فہرست ہے۔ انہی الزامات کی بنیاد پر امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈالتا آیا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کرے۔
البتہ پاکستانی فوجی حکام کا بھی یہ موقف ہے کہ شمالی وزیرستان میں امن و امان کی موجودہ صورت حال کسی فوجی آپریشن کا تقاضہ نہیں کرتی۔
دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کی ایک بڑی وجہ بھی شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا معاملہ ہے اور اس علاقے میں بغیر پائلٹ کے امریکی جاسوس طیاروں یا ڈرونز کے مبینہ میزائل حملے بھی جاری ہیں۔