پاکستان کے اعلیٰ حکام نے اپنی سراغ رساں ایجنسی اور القاعدہ سے منسلک ایک افغان شدت پسند گروپ کے درمیان مبینہ رابطوں کے امریکی الزامات کی تردید کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 'ڈو مور' کے لیے آنے والے بیرونی دباؤ کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
پاکستان کے وزیرِاعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جمعرات کو ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں اور فوجی قیادت کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر "مزید کاروائی کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا"۔
دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ایوانِ وزیرِ اعظم میں ہونے والی اس 'کل جماعتی کانفرنس' سے خطاب میں وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان کی "قربانیوں اور کامیابیوں" کے دیکھتے ہوئے امریکہ کے حالیہ الزامات "حیران کن" ہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ کانفرنس وزیرِاعظم گیلانی کی دعوت پر ہورہی ہے اور اس کا مقصد پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس ایجنسی 'انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)' اور القاعدہ سے منسلک طالبان شدت پسند گروہ 'حقانی نیٹ ورک' کے درمیان موجود رابطوں کے حوالے سے حال ہی میں سامنے آنے والے امریکی الزامات پر غور کرنا ہے۔
اپنے خطاب میں وزیرِاعظم گیلانی نے کہا کہ امریکہ کو خطے میں عدم استحکام کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کا سلسلہ بند کرتے ہوئے پاکستان کے قومی مفادات کا احترام کرنا چاہیے۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ "مذاکرات اور گفت و شنید" کے لیے پاکستان کے دروازے عالمی برادری کے لیے کھلے ہیں۔
اسلام آباد میں جاری اس کانفرنس میں ملک کی 50 سے زائد سیاسی، مذہبی اور علاقائی جماعتوں کے سربراہان کے علاوہ وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر، بری فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی اور 'آئی ایس آئی' کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل شجاع پاشا بھی شریک ہیں۔
ایک مقامی ٹیلی ویژن چینل 'جیو ٹی وی' نے خبر دی ہے کہ اجلاس کے شرکاء کو موجودہ صورتِ حال پر بریفنگ دیتے ہوئے جنرل پاشا کا کہنا تھا کہ ان کی ایجنسی نہ تو دہشت گردی برآمد کر رہی ہے اور نہ ہی 'حقانی نیٹ ورک' کی مدد کرتی ہے۔
خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا ہے کہ کانفرنس کے دوران 'آئی ایس آئی' کے سربراہ نے کہا کہ "شدت پسندی سے نبٹنے کی آڑ میں امریکہ کی پاکستان میں کوئی کاروائی ناقابلِ قبول ہوگی"۔ ان کے بقول پاکستانی فوج ایسی کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تاہم ساتھ ہی ساتھ 'آئی ایس آئی' کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات کی خرابی کو اس حد تک نہیں پہنچنے دینا چاہیے جہاں سے واپسی ناممکن ہو۔
واضح رہے کہ واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے 'آئی ایس آئی' پر 'حقانی نیٹ ورک' اور اس کے شدت پسندوں کو افغانستان میں موجود امریکی مفادات پر حملوں میں مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
امریکہ کے سبک دوش ہونے والے جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن نے گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹروں کو بتایا تھا کہ 'آئی ایس آئی' حقانی نیٹ ورک کے ذریعہ افغانستان میں افغان اور اتحادی افواج کے خلاف 'پراکسی جنگ' لڑ رہی ہے۔
امریکی سینیٹرز کو اپنی بریفنگ میں ایڈمرل ملن نے دعویٰ کیا تھا کہ رواں ماہ کابل میں امریکی سفارت خانے اور نیٹو افواج کے صدر دفتر پر ہونے والے حملوں میں حقانی نیٹ ورک ملوث تھا جسے اس کاروائی میں 'آئی ایس آئی' کی مدد حاصل تھی۔
تاہم بدھ کو 'وہائٹ ہائوس' کے ایک ترجمان نے ایڈمرل ملن کے دعووں کی توثیق سے انکار کرتے ہوئے اتنا کہنے پر اکتفا کیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری لڑائی میں پاکستان کی اعانت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔