پاکستانی امور سے باخبر ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے کالم نگار، ڈیوڈ اگنیشس نے ایک کالم میں پاک امریکی تعلقات میں کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کو اپنے تعلقات پر بہت مایوسی ہوئی ہے۔دونوں میں سے کسی کو بظاہر اِس کا اندازہ نہیں ہے کہ دوسرا فریق کس بات پر اُس سے ناراض ہے؟ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ دونوں کے اہم مشترکہ مفادات ہیں۔
مضمون نگار کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کی اِس بات سے اتفاق ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین اختلافی امور موجود ہیں، لیکن مکمل تعطل نہیں ہے اور بیشتر امریکی پالیسی ساز اِس سے اتفاق کرتے ہیں۔
ڈیوڈ اگنیشس کہتے ہیں کہ اِس پر تعجب نہیں ہونا چاہیئے کہ اگر اسامہ بن لادن پر چھاپے کے سلسلے میں بعض پاکستانیوں کو سی آئی اے کو معلومات فراہم کرنے کے شبہے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں غیر ملک کے لیے، چاہے وہ دوست ملک ہی کیوں نہ ہو، جاسوسی کرنا ناقابلِ قبول ہوگی۔ اِس کی ایک مثال امریکی شہری جوناتھن پولارڈ کی ہے جو اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کی پاداش میں 20سال سے جیل میں ہے۔
ڈیوڈ اگنیشس نے پاک امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کو سراہا۔
اول، دونوں ملکوں نے انسدادِ دہشت گردی کا ایک مشترکہ ٹاسک فورس قائم کیا ہے۔ دوئم، جنوب مغربی پاکستان کے اڈے سے ڈرون حملے بند ہوجائیں گے۔ لیکن، افغانستان سے ڈرون حملے جاری رہیں گے۔ اِس کے ساتھ ساتھ امریکہ برابر F16طیارےپاکستان کو فراہم کرتا رہے گا، اور کراچی میں بحریہ کے ایک اڈے پر حملے میں دیکھ بھال کرنے والے جو دو ’اوریان ‘ طیارے تباہ ہوئے تھے اُن کی جگہ امریکہ شاید دوسرے طیارے فراہم کرے گا۔تیسرے، امریکی اسپیشل فورسز کے ساتھ پاکستان کا تعاون جاری رہے گا۔ اور، چوتھے، افغانستان میں ایک سیاسی سمجھوتے کی کوشش میں امریکہ پاکستان کا مشورہ حاصل کرے گا۔
کالم نگار کی نظر میں امریکی نقطہٴ نظر سے یہ انتظامات آئڈیل تو نہیں لیکن اُن کی مدد سے اُس دہشت گرد دشمن کے خلاف اب تعاون جاری رکھنا ممکن ہوجائے گا جِس سے دونوں ملکوں کو خطرہ لاحق ہے۔
کیا منشیات کے خلاف عالمی جنگ ختم ہونی چاہیئے؟ اِس عنوانی سے سابق ڈیموکریٹک صدر جمی کارٹر ’نیو یارک ٹائمز‘ میں مضمون میں عالمی ڈرگ کمیشن کی رپورٹ کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس میں منشیات کو ختم کرنے کی مساحی خاص طور پر امریکہ میں 40سال سے جاری منشیات کے خلاف مہم کو مکمل طور پر ناکام قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ سنہ 1998 سے لے کر سنہ 2008تک افیون کے استعمال میں34.5فی صد، کوکین میں 27فی صد اور چرس میں 8.5فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔
کمیشن نے سفارش کی ہے کہ منشیات کے عادی لوگوں کو جو دوسروں کا کچھ نہیں بگاڑتے، جیل میں بھیجنے کی بجائے اُن کا علاج ہونا چاہیئے اور تشدد سے پاک اور کم درجے کا نشہ کرنے والے لوگوں کی بجائے بین الاقوامی سطح پر تشدد پر آمادہ مجرمانہ تنظیموں کے خلاف مربوط کارروائی پر زیادہ زور دینا چاہیئے۔
مسٹر کارٹر کہتے ہیں کہ 1977ء میں جب وہ صدر تھے، اُنھوں نے ملک کے لیے بالکل ایسی ہی پالیسی اپنائی تھی جسے بڑی مقبولیت حاصل رہی۔ لیکن، 1980ء کی دہائی میں صدر ریگن اور کانگریس نےمنشیات کی اِس متوازن پالیسی کی جگہ غیر ممالک سے منشیات کی درآمد پر کنٹرول کی لاحاصل کوششیں شروع کیں جس پر بھارت خرچ اُٹھا اور پولیس اور فوجوں کی مدد سے چرس، کوکو اور افیون کی عالمی کاشت کو گھٹانے کی کوشش کی جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ منشیات سے متعلق تشدد، کرپشن اور حقوقِ انسانی کی پامالی میں اضافہ ہوگیا۔
کارٹر کہتے ہیں کہ منشیات کے عادی لوگوں کو معاشرے کا مفید رکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ پالیسیاں زیادہ انسان دوست اور مؤثر بنائی جائیں، اور امریکہ کی حکومت کو اِس عالمی کمیشن کی تجویز کردہ اصلاحات کی نہ صرف حمایت کرنی چاہیئے بلکہ اُن پر عمل درآمد بھی کرنا چاہیئے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: