وزیرِ اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے توانائی کے شعبے میں تعاون کے لیے ضابطہ کار بنانے کی تجویز بھی دی، کیوں کہ ’’توانائی کا بحران ایک کٹھن چیلنچ کی شکل اختیار کر رہا ہے‘‘۔
آٹھ ترقی پذیر ممالک کی تنظیم ’ڈی ایٹ‘ کے رکن پاکستان نے ’’معنی خیز‘‘ تعاون کے لیے مشترکہ اقتصادی و تجارتی رابطوں میں حائل رکاوٹیں دور کرنے سے متعلق معاہدوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈی ایٹ کے رکن ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے کمشنر سطح پر اجلاس کا آغاز پیر کو اسلام آباد میں ہوا۔
وزارتِ خارجہ میں ہونے والے اس دو روزہ اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے رکن ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کو وسط دینے کی اہمیت پر زور دیا۔
سرکاری بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا کہ تنظیم کے رکن ممالک ترجیحی تجارت سے متعلق معاہدے کو عملی جامہ پہنانے پر خصوصی توجہ دیں۔
وزیرِ اعظم کے مشیر نے توانائی کے شعبے میں تعاون کے لیے ضابطہ کار بنانے کی تجویز بھی دی، کیوں کہ ’’توانائی کا بحران ایک کٹھن چیلنچ کی شکل اختیار کر رہا ہے‘‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان ڈی ایٹ انرجی فورم کے انعقاد کی تیاریوں میں مصروف ہے، تاہم اس حوالے سے کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
سرتاج عزیز نے ڈی ایٹ ممالک کے درمیان استعدادِ کار میں اضافے، ٹیکنالوجی، سرمائے اور افرادی قوت کے تبادلے، اسلامی بینکاری اور حلال اشیاء سے متعلق تعاون بڑھانے کی تجویز بھی پیش کی۔
اجلاس میں شریک ڈی ایٹ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سید علی محمد موسوی نے اُمید ظاہر کی کہ تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان ترجیحی بنیاد پر تجارت سے متعلق معاہدے پر جلد عمل در آمد شروع ہو جائے گا۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ ڈی ایٹ تنظیم رکن ممالک کی معیشتوں کو مضبوط بنانے میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔
اقتصادی ماہر اور سابق وزیرِ خزانہ سلیم مانڈوی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈی ایٹ ممالک کے درمیان مشترکہ اقتصادی و تجارتی تعاون کے ’’وسیع مواقع‘‘ موجود ہیں۔
’’(لیکن) اس کے لیے ضروری ہے کہ رکن ممالک کے قائدین ڈی ایٹ کو (خالصتاً) اقتصادی تنظیم بنانے کا عہد کر لیں ... امریکی بلاک دیکھیں یا یورپی یونین کو دیکھیں، تو اُنھوں نے بنیادی طور پر اپنی معشتوں کو ضم کرکے عالمی سطح پر مضبوط کیا ہے۔ تو جب تک ہم بھی ایسا نہیں کریں گے تو ہم دوسرے ممالک کی تنظیموں کے زیرِ اثر رہیں گے۔‘‘
ڈی ایٹ کے رکن ممالک کے درمیان تجارت کا موجودہ سالانہ حجم 150ارب ڈالر ہے، جس کو 2018ء تک 500 ارب ڈالر تک بڑھانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
ڈی ایٹ کمشرنز کا رواں اجلاس ایسے وقت ہو رہا ہے جب 11 مئی کے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ’تجارتی سفارتی کاری‘ کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے۔
سن 2014ء تک ڈی ایٹ کی سربراہی پاکستان کے حصے میں ہے، جب کہ اس تنظیم کے دیگر اراکین بنگلہ دیش، مصر، انڈونیشیا، ایران، ملیشیئا، نائجیریہ اور ترکی ہیں۔
ڈی ایٹ کے رکن ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے کمشنر سطح پر اجلاس کا آغاز پیر کو اسلام آباد میں ہوا۔
وزارتِ خارجہ میں ہونے والے اس دو روزہ اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے رکن ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کو وسط دینے کی اہمیت پر زور دیا۔
سرکاری بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا کہ تنظیم کے رکن ممالک ترجیحی تجارت سے متعلق معاہدے کو عملی جامہ پہنانے پر خصوصی توجہ دیں۔
وزیرِ اعظم کے مشیر نے توانائی کے شعبے میں تعاون کے لیے ضابطہ کار بنانے کی تجویز بھی دی، کیوں کہ ’’توانائی کا بحران ایک کٹھن چیلنچ کی شکل اختیار کر رہا ہے‘‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان ڈی ایٹ انرجی فورم کے انعقاد کی تیاریوں میں مصروف ہے، تاہم اس حوالے سے کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
سرتاج عزیز نے ڈی ایٹ ممالک کے درمیان استعدادِ کار میں اضافے، ٹیکنالوجی، سرمائے اور افرادی قوت کے تبادلے، اسلامی بینکاری اور حلال اشیاء سے متعلق تعاون بڑھانے کی تجویز بھی پیش کی۔
اجلاس میں شریک ڈی ایٹ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سید علی محمد موسوی نے اُمید ظاہر کی کہ تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان ترجیحی بنیاد پر تجارت سے متعلق معاہدے پر جلد عمل در آمد شروع ہو جائے گا۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ ڈی ایٹ تنظیم رکن ممالک کی معیشتوں کو مضبوط بنانے میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔
اقتصادی ماہر اور سابق وزیرِ خزانہ سلیم مانڈوی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈی ایٹ ممالک کے درمیان مشترکہ اقتصادی و تجارتی تعاون کے ’’وسیع مواقع‘‘ موجود ہیں۔
’’(لیکن) اس کے لیے ضروری ہے کہ رکن ممالک کے قائدین ڈی ایٹ کو (خالصتاً) اقتصادی تنظیم بنانے کا عہد کر لیں ... امریکی بلاک دیکھیں یا یورپی یونین کو دیکھیں، تو اُنھوں نے بنیادی طور پر اپنی معشتوں کو ضم کرکے عالمی سطح پر مضبوط کیا ہے۔ تو جب تک ہم بھی ایسا نہیں کریں گے تو ہم دوسرے ممالک کی تنظیموں کے زیرِ اثر رہیں گے۔‘‘
ڈی ایٹ کے رکن ممالک کے درمیان تجارت کا موجودہ سالانہ حجم 150ارب ڈالر ہے، جس کو 2018ء تک 500 ارب ڈالر تک بڑھانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
ڈی ایٹ کمشرنز کا رواں اجلاس ایسے وقت ہو رہا ہے جب 11 مئی کے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ’تجارتی سفارتی کاری‘ کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے۔
سن 2014ء تک ڈی ایٹ کی سربراہی پاکستان کے حصے میں ہے، جب کہ اس تنظیم کے دیگر اراکین بنگلہ دیش، مصر، انڈونیشیا، ایران، ملیشیئا، نائجیریہ اور ترکی ہیں۔