ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف بھی طالبان اور اس کے اتحادیوں کی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ بظاہر سکیورٹی ادارے اس پر چشم پوشی سے کام لیتے رہے۔
انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان میں آئینی و جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کے باوجود ملک کے سیاسی و عسکری ادارے اپنے لوگوں پر شدت پسندوں کے حملے روکنے میں نا کام رہے ہیں۔
منگل کو دنیا بھر میں انسانی حقوق سے متعلق اپنی 667 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں حقوق انسانی سے متعلق صورت حال کا احاطہ کیا۔
پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال عام انتخابات کے عمل کے دوران اپریل اور مئی میں تشدد کے واقعات میں کم از کم 130 افراد ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوئے اور ان حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس کے اتحادیوں نے قبول کیں جو کہ انتخابات کو ’’غیر اسلامی‘‘ قرار دیتے ہوئے لوگوں کو حکمران اتحاد کے انتخابی جلسوں سے دور رہنے کی تنبیہ کر چکے تھے۔
تنظیم کے پاکستان میں ڈائریکٹر علی دایان حسن کا کہنا تھا کہ گو کہ جمہوری انداز میں انتقال اقتدار دیگر کئی ایسے ملکوں کے لیے ایک مثال ہے جو کہ اسی طرح کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں لیکن ان کے بقول انتخابات میں طالبان کی طرف سے کی گئی پر تشدد کارروائیوں نے انتخابات کی شفافیت پر بھی کئی سوالیہ نشان اٹھائے۔
رپورٹ میں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف بھی طالبان اور اس کے اتحادیوں کی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ بظاہر سکیورٹی ادارے اس پر چشم پوشی سے کام لیتے رہے۔
ہیومن رائٹس کے مطابق پاکستان میں خصوصاً شیعہ مسلک اور غیر مسلم برادری شدت پسندوں کی کارروائیوں کو بری طرح نشانہ بنی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2013ء میں ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ پر تشدد کارروائیوں میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے 400 سے زائد افراد مارے گئے۔ رپورٹ میں خصوصاً بلوچستان میں شیعہ ہزار برادری پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں اور پشاور میں چرچ پر ہونے والے خودکش بم دھماکوں کا ذکر بھی کیا گیا۔
مزید برآں شدت پسندوں کی طرف سے انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملوں کے علاوہ سرکاری املاک و تنصیبات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر جان لیوا حملوں کا تذکرہ بھی شامل ہے۔
علی دایان حسن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کی طرف سے طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات کی کوشش کے باوجود بھی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’دراصل جو لوگ قتل و غارت میں ملوث ہیں ان کا احتساب کیا جانا چاہیے نہ کہ ان سے نرمی برتی جائے اور احتساب کے بغیر امن ممکن نہیں۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں سکیورٹی فورسز پر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مختلف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ہزاروں مشتبہ لوگ سکیورٹی فورسز کے حراستی مراکز میں بغیر کسی مقدمے کے موجود ہیں۔
’’جب تک پاکستان انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بناتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی نہیں بناتا اس وقت تک اس سے طالبان اپنی کارروائیاں جاری رکھنے میں سہولت فراہم ہوتی رہے گی۔‘‘
تنظیم نے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ہلاکتوں پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا سد باب صرف صوبائی حکومت کی ذمہ داری نہیں۔’’ اگر وزیراعظم نواز شریف بلوچستان میں امن و امان کے لیے سنجیدہ ہیں تو انھیں پہلے حکام کو یہاں سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی مبینہ خلاف ورزیوں کو روکنے کے احکامات دینا ہوں گے۔‘‘
پاکستان میں خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد اور ان کے حقوق کی پامالی کا ذکر کرتے ہوئے’’غیرت‘‘ کے نام پر قتل، تیزاب کے حملوں، گھریلو تشدد اور جبری شادیوں کا ایک بڑا مسئلہ قرار دیا گیا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انسانی حقوق کے چیئرمین چودھری بشیر ورک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا ہے اور بہتری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنی کمیٹی کی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتے رہیں گے۔
منگل کو دنیا بھر میں انسانی حقوق سے متعلق اپنی 667 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں حقوق انسانی سے متعلق صورت حال کا احاطہ کیا۔
پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال عام انتخابات کے عمل کے دوران اپریل اور مئی میں تشدد کے واقعات میں کم از کم 130 افراد ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوئے اور ان حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس کے اتحادیوں نے قبول کیں جو کہ انتخابات کو ’’غیر اسلامی‘‘ قرار دیتے ہوئے لوگوں کو حکمران اتحاد کے انتخابی جلسوں سے دور رہنے کی تنبیہ کر چکے تھے۔
تنظیم کے پاکستان میں ڈائریکٹر علی دایان حسن کا کہنا تھا کہ گو کہ جمہوری انداز میں انتقال اقتدار دیگر کئی ایسے ملکوں کے لیے ایک مثال ہے جو کہ اسی طرح کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں لیکن ان کے بقول انتخابات میں طالبان کی طرف سے کی گئی پر تشدد کارروائیوں نے انتخابات کی شفافیت پر بھی کئی سوالیہ نشان اٹھائے۔
رپورٹ میں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف بھی طالبان اور اس کے اتحادیوں کی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ بظاہر سکیورٹی ادارے اس پر چشم پوشی سے کام لیتے رہے۔
ہیومن رائٹس کے مطابق پاکستان میں خصوصاً شیعہ مسلک اور غیر مسلم برادری شدت پسندوں کی کارروائیوں کو بری طرح نشانہ بنی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2013ء میں ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ پر تشدد کارروائیوں میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے 400 سے زائد افراد مارے گئے۔ رپورٹ میں خصوصاً بلوچستان میں شیعہ ہزار برادری پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں اور پشاور میں چرچ پر ہونے والے خودکش بم دھماکوں کا ذکر بھی کیا گیا۔
مزید برآں شدت پسندوں کی طرف سے انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملوں کے علاوہ سرکاری املاک و تنصیبات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر جان لیوا حملوں کا تذکرہ بھی شامل ہے۔
علی دایان حسن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کی طرف سے طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات کی کوشش کے باوجود بھی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’دراصل جو لوگ قتل و غارت میں ملوث ہیں ان کا احتساب کیا جانا چاہیے نہ کہ ان سے نرمی برتی جائے اور احتساب کے بغیر امن ممکن نہیں۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں سکیورٹی فورسز پر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مختلف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ہزاروں مشتبہ لوگ سکیورٹی فورسز کے حراستی مراکز میں بغیر کسی مقدمے کے موجود ہیں۔
’’جب تک پاکستان انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بناتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی نہیں بناتا اس وقت تک اس سے طالبان اپنی کارروائیاں جاری رکھنے میں سہولت فراہم ہوتی رہے گی۔‘‘
تنظیم نے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ہلاکتوں پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا سد باب صرف صوبائی حکومت کی ذمہ داری نہیں۔’’ اگر وزیراعظم نواز شریف بلوچستان میں امن و امان کے لیے سنجیدہ ہیں تو انھیں پہلے حکام کو یہاں سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی مبینہ خلاف ورزیوں کو روکنے کے احکامات دینا ہوں گے۔‘‘
پاکستان میں خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد اور ان کے حقوق کی پامالی کا ذکر کرتے ہوئے’’غیرت‘‘ کے نام پر قتل، تیزاب کے حملوں، گھریلو تشدد اور جبری شادیوں کا ایک بڑا مسئلہ قرار دیا گیا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انسانی حقوق کے چیئرمین چودھری بشیر ورک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا ہے اور بہتری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنی کمیٹی کی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتے رہیں گے۔