مالدیپ میں سارک سربراہ اجلاس کے موقعے پر بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم من موہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی کی ملاقات پر نئی دہلی میں ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔
بائیں بازو کی جماعتوں نے اِسے دوطرفہ تعلقات کی سمت میں ایک مثبت قدم قرار دیا ہے، جب کہ اصل اپوزیشن جماعت، بھارتیا جنتا پارٹی نے اِس پر نقطہ چینی کی ہے۔
بائیں بازو کے راہنما، ڈی راجہ نے کہا ہے کہ دونوں وزرائے اعظم نےباہمی اشوز پر اچھے پڑوسیوں کی مانند تبادلہٴ خیال کیا ہے اور یہ ایک مثبت اشارہ ہے۔اُنہوں نے کہا کہ ’ دونوں راہنماؤں نے جو بات چیت کی ہے، میں اُسے مثبت پاتا ہوں‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ دونوں ملکوں کے لیے مفید ہوگا۔دونوں راہنماؤں نے اُن اشوز پر تبادلہٴ خیال کیا ہے جِن پر اُن کو تشویش ہے۔
اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ ’سی پی آئی‘ کا خیال ہے کہ ’دونوں ممالک مکمل مذاکرات کو آگے بڑھائیں اور متنازعہ مسائل کا حل تلاش کریں۔ دونوں ملکوں کے چاہیئے کہ اچھے پڑوسیوں کی مانند دوستانہ تعلقات کو فروغ دیں اور آپس کے اختلافات کو ختم کریں‘۔
اُدھر، اصل اپوزیشن جماعت بی جے پی نے اِس ملاقات پر نکتہ چینی کی ہے اور وزیر اعظم کے اِس بیان کو کہ پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی امن کے پیامبر ہیں، ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے۔
سینئر بی جے پی لیڈر یشونت سنہا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ من موہن سنگھ کا یہ بیان حقیقت سے پرے ہے اور مالدیپ میں دونوں راہنماؤں کی ملاقات ’اُسی طرح تباہ کُن‘ ہوگی جِس طرح مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں ہونے والی ملاقات تباہ کُن ثابت ہوئی تھی۔
بی جے پی ترجمان سید شاہنواز حسین نے کہا کہ اتحاد کی حکومت پاکستان کے بارے میں اپنا مؤقف بدل رہی ہے۔اُنھوں نے کہا کہ بھارت میں بھی بہت سے لوگ پاکستان کے ساتھ اچھے رشتے چاہتے ہیں، لیکن یہ رشتے اُسی وقت قائم ہوسکتے ہیں جب بہت سی باتیں طے پاجائیں۔