اعزاز احمد چودھری نے بھارتی الزام تراشی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سرحدی کشیدگی کو ہوا دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
اسلام آباد —
پاکستان نے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی عارضی سرحد ’لائن آف کنٹرول‘ اور سیالکوٹ کے مقام پر بھارت سے جڑی ورکنگ باؤنڈری پر کشیدگی میں اضافے کو ’’انتہائی افسوس ناک‘‘ قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کے اعلیٰ عسکری عہدیداروں کی مجوزہ ملاقات کے جلد از جلد انعقاد پر زور دیا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق بھارتی سکیورٹی فورسز ورکنگ باؤنڈری کے نام سے منسوب سرحد کے قریب دیہات اور پاکستانی چوکیوں کو رواں ہفتے کے دوران کم از کم 27 مرتبہ ’’بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری‘‘ کا نشانہ بنا چکی ہیں، جس سے دو شہری اور ایک نیم فوجی اہلکار ہلاک جب کہ دو درجن سے زائد شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔
عسکری ذرائع نے بتایا کہ سرحد پر فائربندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کا ایک اور واقعہ جمعہ کی صبح پیش آیا جب بھارتی فورسز نے ورکنگ باؤنڈری کے چارواہ سیکٹر میں دھمالہ گاؤں کو فائرنگ اور گولہ باری کا نشانہ بنایا۔ اس واقعہ میں دو شہری زخمی ہوئے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے اسلام آباد میں جمعہ کو نیوز کانفرنس میں سرحدی کشیدگی کے بارے میں صحافیوں کے سوالات پر کہا کہ پاکستانی چوکیوں پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا بھارتی سلسلہ غیر مناسب ہے۔
ترجمان نے بھارتی وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے اُس حالیہ بیان پر براہ راست تبصرہ کرنے سے انکار کیا جس میں اُنھوں نے حال ہی میں ہونے والی جھڑپوں کے آغاز کا الزام پاکستانی سکیورٹی فورسز پر عائد کرتے ہوئے اپنے ہم منصب نواز شریف کو ہدف تنقید بنایا تھا۔
اعزاز احمد چودھری نے بھارتی الزام تراشی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سرحدی کشیدگی کو ہوا دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
’’ہمارے لیے یہ (جھڑپیں) انتہائی افسوس ناک ہیں اور فائربندی کے معاہدے پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی پالیسی ہے کہ وہ فائرنگ میں پہل نہیں کرتے لیکن اگر اُن پر فائرنگ کی جائے تو وہ ذمہ دارانہ انداز میں اس کا موثر جواب دیتے ہیں اور اب بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔
اعزاز احمد چودھری کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ نیو یارک میں منموہن سنگھ اور نواز شریف کے درمیان ملاقات میں اتفاق کیا گیا تھا کہ سرحدی کشیدگی دور کرنے اور فائر بندی کے معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک کی افواج کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز ملاقات کریں گے۔
’’دونوں وزرائے اعظم کے فیصلے پر جلد عمل درآمد ہونا چاہیئے، عسکری عہدیداروں کی ملاقات ضروری ہے تاکہ اس معاملے کو جلد از جلد حل کیا جا سکے۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی مخلصانہ خواہش کا اظہار کر چکے ہیں اور اُن کے بقول حالیہ کشیدگی سے اس خواہش پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوا۔
’’وزیرِ اعظم نے مثبت اشارے دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے ... ہمیں مل بیٹھ کر بات چیت سے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یقیناً اُمید ہے کہ ہماری مخلصانہ کوششوں کا اس ہی انداز میں جواب دیا جائے گا۔‘‘
اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ امریکی صدر براک اوباما اور نواز شریف کے درمیان بات چیت میں ممبئی حملوں سے متعلق قانونی کارروائی کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا، اور پاکستانی وزیرِ اعظم نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں پاکستان کو بھارت سے مزید شواہد درکار ہیں۔
’’مسئلے کا حل ایک دوسرے پر الزام تراشی نہیں بلکہ تعاون میں پنہاں ہے۔ ‘‘
وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کو بھی اتنی ہی تشویش ہے جتنی کہ بھارت کو۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار خود پاکستان بنا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق بھارتی سکیورٹی فورسز ورکنگ باؤنڈری کے نام سے منسوب سرحد کے قریب دیہات اور پاکستانی چوکیوں کو رواں ہفتے کے دوران کم از کم 27 مرتبہ ’’بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری‘‘ کا نشانہ بنا چکی ہیں، جس سے دو شہری اور ایک نیم فوجی اہلکار ہلاک جب کہ دو درجن سے زائد شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔
عسکری ذرائع نے بتایا کہ سرحد پر فائربندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کا ایک اور واقعہ جمعہ کی صبح پیش آیا جب بھارتی فورسز نے ورکنگ باؤنڈری کے چارواہ سیکٹر میں دھمالہ گاؤں کو فائرنگ اور گولہ باری کا نشانہ بنایا۔ اس واقعہ میں دو شہری زخمی ہوئے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے اسلام آباد میں جمعہ کو نیوز کانفرنس میں سرحدی کشیدگی کے بارے میں صحافیوں کے سوالات پر کہا کہ پاکستانی چوکیوں پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا بھارتی سلسلہ غیر مناسب ہے۔
ترجمان نے بھارتی وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے اُس حالیہ بیان پر براہ راست تبصرہ کرنے سے انکار کیا جس میں اُنھوں نے حال ہی میں ہونے والی جھڑپوں کے آغاز کا الزام پاکستانی سکیورٹی فورسز پر عائد کرتے ہوئے اپنے ہم منصب نواز شریف کو ہدف تنقید بنایا تھا۔
اعزاز احمد چودھری نے بھارتی الزام تراشی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سرحدی کشیدگی کو ہوا دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
’’ہمارے لیے یہ (جھڑپیں) انتہائی افسوس ناک ہیں اور فائربندی کے معاہدے پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی پالیسی ہے کہ وہ فائرنگ میں پہل نہیں کرتے لیکن اگر اُن پر فائرنگ کی جائے تو وہ ذمہ دارانہ انداز میں اس کا موثر جواب دیتے ہیں اور اب بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔
اعزاز احمد چودھری کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ نیو یارک میں منموہن سنگھ اور نواز شریف کے درمیان ملاقات میں اتفاق کیا گیا تھا کہ سرحدی کشیدگی دور کرنے اور فائر بندی کے معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک کی افواج کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز ملاقات کریں گے۔
’’دونوں وزرائے اعظم کے فیصلے پر جلد عمل درآمد ہونا چاہیئے، عسکری عہدیداروں کی ملاقات ضروری ہے تاکہ اس معاملے کو جلد از جلد حل کیا جا سکے۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی مخلصانہ خواہش کا اظہار کر چکے ہیں اور اُن کے بقول حالیہ کشیدگی سے اس خواہش پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوا۔
’’وزیرِ اعظم نے مثبت اشارے دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے ... ہمیں مل بیٹھ کر بات چیت سے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یقیناً اُمید ہے کہ ہماری مخلصانہ کوششوں کا اس ہی انداز میں جواب دیا جائے گا۔‘‘
اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ امریکی صدر براک اوباما اور نواز شریف کے درمیان بات چیت میں ممبئی حملوں سے متعلق قانونی کارروائی کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا، اور پاکستانی وزیرِ اعظم نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں پاکستان کو بھارت سے مزید شواہد درکار ہیں۔
’’مسئلے کا حل ایک دوسرے پر الزام تراشی نہیں بلکہ تعاون میں پنہاں ہے۔ ‘‘
وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کو بھی اتنی ہی تشویش ہے جتنی کہ بھارت کو۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار خود پاکستان بنا ہے۔