پاکستانی کشمیر کے حکام نے مطالبہ کیا کہ بھارتی حکام سرحد پار روکے گئے 49 ڈرائیوروں بشمول اُس ڈرائیور کو بھی رہا کرے جس کے خلاف منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقے کشمیر کو منقسم کرنے والی حد بندی لائن کے آر پار تجارتی سامان سے بھرے ٹرکوں کی آمد رفت بند ہوئے 12 دن سے زیادہ ہو گئے ہیں۔
پاکستانی کشمیر کی ٹریول اینڈ ٹریڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈئیر ریٹائرڈ محمد اسماعیل نے بتایا کہ اس تجارت کی بحالی کے لیے دونوں ملکوں کے متعلق حکام کے درمیان پیر کو چکوٹھی۔اُڑی سیکٹر میں نوے منٹ کی ملاقات ہوئی لیکن اُس میں کوئی پیش رفت نا ہو سکی۔
محمد اسماعیل کے مطابق پاکستانی کشمیر کے حکام نے مطالبہ کیا کہ بھارتی حکام سرحد پار روکے گئے 49 ڈرائیوروں بشمول اُس ڈرائیور کو بھی رہا کرے جس کے خلاف منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
لیکن اس مطالبے کو رد کر دیا گیا۔ محمد اسماعیل کے بقول اُنھوں نے بھارتی حکام سے یہ بھی کہا کہ وہ منشیات کی مبینہ اسمگلنگ سے متعلق شواہد سے آگاہ کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ انتہائی سخت چھان بین کے بعد سامان بھارتی کشمیر بھیجا جاتا ہے اور اُن کے بقول ڈرائیور کو حراست میں لینا درست نہیں کیوں کہ اس کا تجارتی سامان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
توقع ہے کہ کشمیر کے دونوں جانب تجارت سے متعلق حکام کے درمیان اس تنازع کے حل کے لیے ایک اور ملاقات 30 جنوری کو ہو گی۔
بھارتی کشمیر سے آئے 27 ڈرائیوروں کو بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام نے روک رکھا ہے جب کہ اطلاعات کے مطابق کئی مسافر بھی اس حالیہ تنازع کے باعث بس سروس معطل ہونے سے یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔
منقسم کشمیر کے درمیان تجارت کا تنازع بھارتی حکام کے اس الزام کے بعد پیدا ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی کشمیر سے آنے والے تجارتی سامان میں سے منشیات برآمد ہوئیں۔ جس کے بعد سے پاکستانی کشمیر کے تاجروں کے 49 ٹرک جب کہ بھارتی کشمیر کے 27 ٹرک لائن آف کنٹرول کے آر پار پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں تجارت کا آغاز 2008 میں ہوا تھا لیکن اس کے بعد سے کئی مرتبہ مختلف وجوہات کی بنا پر یہ تعطل کا شکار رہی۔
حالیہ تنازع کے بعد دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ کے عہدیداروں کے درمیان بھی اس معاملے پر بات چیت کی گئی۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کے حکام رابطے میں ہیں۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ بھارتی کشمیر سے آئے ہوئے ڈرائیورں کو حراست میں نہیں لیا گیا صرف اُنھیں روکا گیا ہے۔
تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت کا عمل جاری رہے۔
پاکستانی کشمیر کی ٹریول اینڈ ٹریڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈئیر ریٹائرڈ محمد اسماعیل نے بتایا کہ اس تجارت کی بحالی کے لیے دونوں ملکوں کے متعلق حکام کے درمیان پیر کو چکوٹھی۔اُڑی سیکٹر میں نوے منٹ کی ملاقات ہوئی لیکن اُس میں کوئی پیش رفت نا ہو سکی۔
محمد اسماعیل کے مطابق پاکستانی کشمیر کے حکام نے مطالبہ کیا کہ بھارتی حکام سرحد پار روکے گئے 49 ڈرائیوروں بشمول اُس ڈرائیور کو بھی رہا کرے جس کے خلاف منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
لیکن اس مطالبے کو رد کر دیا گیا۔ محمد اسماعیل کے بقول اُنھوں نے بھارتی حکام سے یہ بھی کہا کہ وہ منشیات کی مبینہ اسمگلنگ سے متعلق شواہد سے آگاہ کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ انتہائی سخت چھان بین کے بعد سامان بھارتی کشمیر بھیجا جاتا ہے اور اُن کے بقول ڈرائیور کو حراست میں لینا درست نہیں کیوں کہ اس کا تجارتی سامان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
توقع ہے کہ کشمیر کے دونوں جانب تجارت سے متعلق حکام کے درمیان اس تنازع کے حل کے لیے ایک اور ملاقات 30 جنوری کو ہو گی۔
بھارتی کشمیر سے آئے 27 ڈرائیوروں کو بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام نے روک رکھا ہے جب کہ اطلاعات کے مطابق کئی مسافر بھی اس حالیہ تنازع کے باعث بس سروس معطل ہونے سے یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔
منقسم کشمیر کے درمیان تجارت کا تنازع بھارتی حکام کے اس الزام کے بعد پیدا ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی کشمیر سے آنے والے تجارتی سامان میں سے منشیات برآمد ہوئیں۔ جس کے بعد سے پاکستانی کشمیر کے تاجروں کے 49 ٹرک جب کہ بھارتی کشمیر کے 27 ٹرک لائن آف کنٹرول کے آر پار پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں تجارت کا آغاز 2008 میں ہوا تھا لیکن اس کے بعد سے کئی مرتبہ مختلف وجوہات کی بنا پر یہ تعطل کا شکار رہی۔
حالیہ تنازع کے بعد دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ کے عہدیداروں کے درمیان بھی اس معاملے پر بات چیت کی گئی۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کے حکام رابطے میں ہیں۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ بھارتی کشمیر سے آئے ہوئے ڈرائیورں کو حراست میں نہیں لیا گیا صرف اُنھیں روکا گیا ہے۔
تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت کا عمل جاری رہے۔