پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال پر بھارت کی گہری نظر ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس پر مباحثے ہو رہے ہیں اور اخبارات اپنے اداریوں میں اس صورت حال کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ جب کہ مبصرین اور تجزیہ کار نیوز چینلز پر اپنے اپنے انداز میں جائزہ لے رہے ہیں۔
بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان بھارت کا قریبی ہمسایہ ملک ہے اس لیے اگر وہاں سیاسی عدم استحکام آتا ہے تو اس پر بھارت کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری امر ہے۔ کیونکہ اس عدم استحکام کا اثر پورے خطے پر پڑے گا۔
اخبارات کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے بجائے اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سفارش کرکے ملک میں سیاسی غیر یقینی پیدا کر دی ہے۔
ان کے خیال میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے والے وزیر اعظم کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کا آئینی اختیار ہے؟
پاکستان کی سیاسی صورت حال بھارت کے لیے تشویش کا باعث ہے
پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر اور تجزیہ کار پربھو دیال کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کی جو صورت حال ہے وہ بھارت کے لیے باعث تشویش ہے۔ تاہم وہ موجودہ صورت حال کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں۔ البتہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت سمیت پوری دنیا کی نگاہیں وہاں کی صورت حال پر مرکوز ہیں۔
انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عمران خان کےا قدام سے پاکستان میں سیاسی غیر یقینی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گیا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہاں کی صورت حال جلد از جلد بہتر ہو اور سیاسی استحکام آئے۔
انھو ں نے کہا کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے بھارت اسے توجہ سے دیکھ رہا ہے۔ کیونکہ اگر وہاں کے حالات خراب ہوتے ہیں تو یہ بات بھارت کے لیے تشویش کا سبب ہو گی۔ بھارت چاہتا ہے کہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ پورے خطے میں استحکام پیدا ہو۔ پاکستان میں سیاسی استحکام اس پورے علاقے کے مفاد میں ہے۔
سینئر تجزیہ کار نیلوفر سہروردی بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ گو کہ اس کا اندرونی معاملہ ہے لیکن ایک پڑوسی ہونے کے ناطے بھارت کو وہاں کی غیر یقینی صورت حال پر تشویش تو ہونی ہی چاہیے۔
ان کے مطابق پاکستان بھار ت کا ایک قریبی پڑوسی ملک ہے۔ وہاں جو کچھ ہورہا ہے اس پر بھارت کو نظر رکھنی چاہیے۔ لیکن ان کے خیال میں وہاں کی موجودہ صورت حال کا دونوں ملکوں کے باہمی رشتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
بھارتی میڈیا میں پاکستان کے صدر عارف علوی کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔
پربھو دیال کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو جس طرح غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر اور پھر وزیر اعظم عمران خان کی سفارش پر صدر عارف علوی نے جس طرح قومی اسمبلی تحلیل کر دی اس کو پاکستان کے عوام ہی ٹھیک سے سمجھ سکتے ہیں۔
تاہم ان کے خیال میں اب جب کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے تو اس کا جو بھی فیصلہ ہوگا توقع ہے کہ اسے وہاں کی تمام سیاسی جماعتیں تسلیم کر یں گی۔ اب یہ سپریم کورٹ پر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان اب پاکستان کے وزیر اعظم نہیں رہے، لیکن صدر عارف علوی نے انھیں نگران وزیراعظم کی تعیناتی تک اس منصب پر رہنے کو کہا ہے۔ اس بارے میں پربھودیال کا کہنا ہے کہ اب جب کہ نئے انتخابات کی بات ہو رہی ہے تو بہتر یہی ہوگا کہ نئے انتخابات کرائے جائیں اور نئی منتخب حکومت قائم ہو۔
انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ اگلے تین ماہ پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں۔ اچھا ہوگا کہ خوش اسلوبی کے ساتھ انتخابات کرا لیے جائیں تاکہ وہاں سیاسی استحکام آجائے۔
کیا موجودہ صورت حال کا اثر پاکستان بھارت تعلقات پر پڑ سکتا ہے
کیا موجوہ صورت حال کا پاک بھارت رشتوں پر کوئی اثر پڑے گا؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے رشتے ہمیشہ بہت نازک رہے ہیں۔ ان کے خیال میں دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے باہمی رشتوں میں خلل پڑتا ہے اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان کی فوج کو چاہیے کہ وہ دہشت گردوں کو سرحد پر سرگرم نہ ہونے دے اور بھارت میں داخل نہ ہونے دے۔ ان کے خیال میں دہشت گردی کو روکنا پورے خطے کے مفاد میں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان سرحد پار سے دہشت گری اور دراندازی کے بھارتی الزام کی تردید کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ بھی دہشت گردی کا مخالف ہے اور اس نے انسداد دہشت گردی کے متعدد آپریشن کیے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
نیلوفر سہروردی کہتی ہیں کہ پاکستان کی موجودہ صورت حال کا باہمی رشتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان کے خیال میں دونوں ملکوں کی قیادتیں اس حق میں ہیں کہ باہمی تعلقات خراب نہ ہوں۔
بعض تجزیہ کار ایل او سی پر سیز فائر جاری رہنے کو باہمی رشتوں کے حق میں بہتر قرار دیتے ہیں۔ ایک نیوز چینل ’زی نیوز‘ پر مباحثے کے دوران ایک سابق فوجی عہدے دار اور دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ریٹائرڈ) اے کے سیواچ نے کہا کہ پاکستان کی فوج بھی چاہتی ہے کہ بھارت کے ساتھ اچھے رشتے ہوں۔ ان کے مطابق اس بار پاکستان میں بھارت مخالف کوئی بیانیہ نہیں ہے جو کہ ایک اچھی بات ہے۔
نیلوفر سہروردی اس خیال کی تائید کرتی ہیں۔ انھوں نے دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر ایک سال سے زائد عرصہ سے جاری سیز فائر کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ فریقین کی جانب سے اس کی سختی سے پابندی کی جا رہی ہے۔ اس عرصے کے دوران سرحد پر کسی بھی طرف سے کوئی گولی نہیں چلی ہے۔ اس کے علاوہ سرحد پر دراندازی کا بھی کوئی خاص معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملک چاہتے ہیں کہ ان کے باہمی رشتے بہتر رہیں۔
ان کے خیال میں اس وقت چین بھی نہیں چاہے گا کہ بھارت اور پاکستان کے رشتے خراب ہوں۔
خیال رہے کہ چین کی جانب سے گزشتہ دنوں بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کئی تجاویز پیش کی گئی تھیں اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے نئی دہلی کا دورہ کرکے اپنے ہم منصب ایس جے شنکر سے مذاکرات کیے تھے۔
نیلوفر سہروردی کے خیال میں روس یوکرین جنگ کے تناظر میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس کے پیش نظر بھی چین نہیں چاہے گا کہ بھارت اور پاکستان کے رشتے میں خرابیاں بڑھیں۔
وہ کئی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ اس سیاسی غیر یقینی کا جو بھی نتیجہ نکلے لیکن باہمی رشتوں پر ان کے خیال میں اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
پاکستان کی صورت حال بھارتی اخبارات کی نظر میں
پاکستان کی موجودہ صورت حال پر نئی دہلی کا کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ عمران خان نے آخری گیند تک کھیلنے کی جو بات کہی تھی وہ اس صورت میں سامنے آئی کہ ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا اور عمران خان نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے اسٹمپ اکھاڑ دیے۔
اخبار کے مطابق عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف سیاسی سرگرمیوں کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا۔ اخبار کا کہنا ہے کہ برصغیر میں کئی رہنماؤں نے اقتدار میں رہنے کے لیے غیر ملکی طاقتوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ عمران خان نے امریکہ کا نام لیا ہے۔
مذکورہ اخبار کے خیال میں عمران خا ن کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے پر قانونی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اب پاکستان کی سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنا ہے۔
اخبار کے مطابق اب ایسا لگتا ہے کہ اس بحران کا حل انتخابات میں ہے، لہٰذا جب تک انتخابات نہیں ہو جاتے پاکستان میں سیاسی غیر یقینی کی صورت حال رہے گی۔
ایک اور کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور انتخابات کے اعلان سے واضح ہوتا ہے کہ میچ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس سیاسی بحران کا جو بھی نتیجہ نکلے اور خواہ کوئی بھی اگلا وزیر اعظم بنے یہ بات طے ہے کہ پاکستان میں معاشی بحران مزید گہرا ہوگا۔
دوسرے اخباروں نے بھی پاکستان کی موجودہ صورت حال کو نمایاں انداز میں اپنے صفحات پر جگہ دی ہے۔